تازہ ترین








آج شام 5 بجے سے 10 بجے تک اور کل 5 بجے سے رات 11 بجے تک موبائل سگنل آف رہینگے .

Thursday, December 31, 2015

گلگت بلتستان, انتظامیہ اور دو نمبریوں میں جنگ .

تحریر : علی نقی شگری


ایک زمانہ تھا جب گلگت بلتستان کی برف پوش پہاڑوں ،شفاف جھیلوں اور گلیشروں کے پگلنے سے وجود میں آنے والی یخ پانی کے جھرنوں والے علاقے کے سادگی پسند باسیوں کی عمریں اوسطا نو ے سے لیکر ایکسو دس تک ہواکرتی تھیں اور وہ بھی مختلف اور پیچیدہ امراض سے مبرا قسم کی صحت مند زندگی کے ساتھ ۔موسمی بخار اور پیٹ کی معمولی تکالیف مقامی دیسی جڑی بوٹیوں کے استعمال سے ٹھیک ہوا کرتا تھا ۔لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ نہ صرف گلگت بلتستان کے باسیوں کی اوسط عمریں ستر اور اسی کی ہو کر رہ گئی ہیں ۔بلکہ صاف ستھرا ہوا پر فضا ماحول اور جدید سہولیات کے باوجود گلگت بلتستان کی اکثریت طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں ۔بہت سوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ اس پر فضا ماحول میں ایسا کیوں ہے لیکن غذائی ماہرین اور بعض طبی ماہرین کی مشترکہ رائے یہ ہے کہ ان پیچیدہ اور نت نئی بیمایوں کی وجہ جدید شہری سہولیات میسر آنے کے بعد لوگوں کی تن آسانی محنت و مشقت سے گریز اور ضرورت سے زیادہ چت لیٹنے اور مرغن غذاوں کے ساتھ ساتھ یہاں کی مارکیٹ میں دستیاب انتہائی غیر معیاری ،زائد المعیاد اور بعض اوقات انسانی صحت کے لئے سخت نقصان دہ اشیائے خوردو نوش کا استعمال بھی ہے ،بلتستان اور گلگت کی مارکیٹوں میں خودرنی تیل ،گھی چائے مصالحہ جات صابن ،سبکٹ ،پاُت چیپس ،مشروبات اور مشروباتی پاوڈر وغیرہ کی ایسی ایسی قیسمیں سوات مینگورہ دیر بالاور دیر پائین وغیرہ سے تعلق رکھنے والے دکانداروں کے ہاں نظر آئے گی جن کا وجود پاکستان کے کسی اور شہر یا قصبے کے دکانوں پر تلاش و بسار کے باوجود دیکھنے اور سونگھنے کو نہیں ملیں گی ۔لائف بوائے صابن کے مشہور برانڈ سے ملتے جلتے درجن بھر صابن یہاں کی دانوں پر دستیاب ہیں ۔اسی طرح خوردنی تیل کے پچاس سے زائد قسمیں مختلف عجیب وغریب برانڈ ناموں سے گلگت بلتستان میں بیچی جارہی تھیں ۔بچوں کے لئے طرح طرح جے ناموں سے زہر آلود مشروبات پاپٹر،نمکو ،چپس وغیرہ کی باار میں بہتات تھی کھانے میں استعمال ہونے والے مصالحہ جات کے نام پر چنے چھلکوں لکڑی کے برادے اور دیگر رنگ شدہ مواد فروخت کی جارہی تھیں ۔مرغی فروش پاکستان اور دنیا بھر کی پولٹری قوانین کے برخلاف پانچ سے آٹھ کلو کے سئسرائیڈز کیمیکل سے بھرپور بریڈر مرغیوں کا گوشت چکن کے نام پر لوگوں کھلانے میں عرصہ دراز سے مصروف تھے اور اس بھینس نما مرغی کے گوشت کو گھنٹوں پانی میں بھگو کر وزن بڑھاکر بیچنا بھی ایک قسم کا معمول تھا ۔ فلور ملوں میں غیر معیاری آٹے کی فراہمی ،ممنوعیت کے باوجود چوری چھپے فائین آٹا تیار کرنا اور اسے پنجاب کے پرنٹ شدہ تھیلوں میں پیک کرکے فروخت کرانا محکمہ خوراک کے بدعنوان افسران و اہلکاروں کی ملی بھگت سے آٹے کی بلیگ مارکیٹنگ عا م سی بات تھی ۔ہوٹلوں ریسٹورانوں اور مختلف محکموں کے کینٹینوں میں حفظان صحت اور صفائی کے معیار ات کی پامالی کوئی اچھنبے کی بات نہ رہی تھی ۔جنرل سٹوروں حتیٰ کہ سرکاری یوٹیلٹی اسٹوروں پر زائد المیعاد اشیائے صرف کی کھلے بندو فروخت کو خلاف قانون نہیں سمجھا جاتا تھا ۔گرم حماموں اور حجاموں کی دکانوں پر پھٹکریوں ،میلے کچیلے تولیوں اور جراثیم زدہ صابن کے ذریعے ایڈز اور ہپاٹائیٹس جیسی بیماریوں کے پھیلاو میں معاون حجاموں پر روک ٹوک کرنے والا کوئی نظر نہیں آرہا تھا ۔
گلگت بلتستان کے مارکیٹ اور صارفین کو دو نمبری اشیا ء صرف سے آلودہ کرنے والوں کے عروج کو بھی بالاخر زوال آنا ہی تھا کہ میونپل کمیٹی سکردو کے واحد فوڈ انسپکٹر اور ضلعی انتظامی کے دیگر ذمہ داروں اسسٹنٹ کمشنر اور سٹی پولیس کے ایس ایچ او کو ان دو نمبری کاروباریوں کے خلاف اقدمات اٹھانے پڑے ۔فوڈ انسپکٹر حسین خان اخونزادہ اس سلسلے میں تمام تر سیاسی ۔سماجی اور معاشرتی دباو حتیٰ کہ کھلے عام دھونس دھمکیوں کے باوجود اسسٹنٹ کمشنر ندیم ناصر کی معیت میں انسانی صحت اور جان کے دشمن تاجروں ،بیوپاریوں اور مافیا کے خؒ اف چھاپوں میں مصروف نظر آتا ہے ۔انتظامیہ کی ان کارروائیوں کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ کیہ فلور ملوں کو سربمہر کرکے بھاری جرمانے عائد کئے گئے بلکہ اسسٹنٹ کمشنر ندیم ناصر کی غیر لچکدار قانونی کارروائیوں کے نتیجے میں متعدد بااثر دو نمبری اشیائے خور دو نوش فروخت کرنے والوں کو جیل میں بھی ڈال دیا گیا ۔فوڈ انسپکٹر حسین خان کی کاوشوں سے اب اسکردو شہر کے تمام ہوٹلوں ریسٹورانوں ،بیکری ورکرز اور تندورچیوں کو مہلک اور موضی امراض سے پاک ہونے کا سرٹیفیکٹ حاصل کرنا بھی لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ اس طرح کے اقدامات پاکستان کے کسی اور شہر میں اب تک نہیں اٹھائے گئے ہیں ۔ضلعی انتظامیہ اور اسکردو کی فوڈ انسپکٹر کی جنگی پیمانے پر جاری ان کارروائیں نے ضلع سکردو کے دو نمبری کاروبارہ لوگوں اور اس سے متعلق مافیا کی کھٹیا ہی کھٹری کردی ہے ۔منگورہ اور سوات سے غیر معیاری اور مضر صحت دو نمبری مصنوعات ٹرکوں میں بھر بھر کر بلتستان لانے والے پٹھان بیوپاری بھی کئی ٹرکوں کا سامان دریا برد کئے جانے کے بعد اب کسی حد تک سدھر گئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ان دو نمبریوں کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ ایک فروٹ بیجنے والے کو کسی خریدار نے فروٹ خراب ہونے کی شکایت کی تو ان کا فرمان تھا کہ یہی گھلی سڑی چیزیں تم لوگوں کا مقدر ہے اور یہی تم لوگوں کو کھلاکر مال بنانے کے لئے ہم ادھر آئے ہوئے ہیں جس پر اس خریدار نے فوڈ انسپکٹر کو شکایت کردی اور فوڈ انسپکٹر کی کارروائی کے بعد وہ پھل فروش اتنا سید ھا ہوگیا ہے کہ اس کے ٹھیلے پر کھبی بھی خراب مال نظر نہیں آتا ہے ۔شہر میں جاری اس بے رحم کارروائیوں کے دوران فلور ملوں پر چھاپے مارے گئے اور غیر معیاری آٹے کی فراہمی کے ساتھ غیر قانون فائین آٹا تیار کرکے پنجاب کے پرنٹ شدی تھیلوں میں مقامی فائن آٹا فروخت کرنے والے فلور مل کے منیجر اور اسسٹنٹ منیجر کو حوالات میں بند کرنے کے ساتھ بھاری جرامانے عائد کئے گئے اوار فلور مل کو سیل کردیا گیا سا گندم کوٹہ بھی بند کردیا گیا ،اسی طرح من مانی کرنے والے قصابوں کو قانون کی گرفت میں لاکر جرمانے عائد کئے گئے ۔بیکرویوں پر چھاپوں کے دوران غیر معیاری مشروبات اور مشروبات بنانے والے پاوڈر کو ضبط کرکے آئندہ ان اشیاء فروخت کرنے پر پابندی لگا دی گئی ،فوڈ ڈیپاریمنٹ کے ذرائع کے مطابق اس وقت شہر میں صرف 14منظور شدہ آئل کمپنیوں کو اجازت دی گئی ہے باقی تمام قسم کے گھی و تیل پر پابندی عائد کردی گئی ہے ۔پاپٹر ،سلینٹی ،نمکو سمیت تمام مضر صحت اقسام پر پابندی عائد کردی گئی ہے جس کے باعث اس وقت صرف مستند کمپنیوں کو اجازت دی ہے کہ وہ چپس فروخت کرئے ۔مقامی قلفی آئسکریم اور برفی جوس پر بھی پابندی لگادی گئی ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ فوڈ انسپکٹر اور ان کی ٹیم کو نہ صرف سیاسی اور مذہبی رہنماوں کے ذریعے سے اس اہم کام پر سے ہاتھ اٹھانے سے روکنے کی کوشش کی بلکہ انہیں دھونس دھمکیاں بھی دیدی گئیں ۔ذرائع کے مطابق پہلے یہ رواج عام تھا کہ اگر چھاپے مارنا ہے تو خانہ پوری کے طور پر چھوٹے اور کم آمدنی والے ہوٹلوں کو نشانہ بنایا جائے اور ایم پی اے سمیت اعلیٰ شخصیات کے ہوٹلوں اور ریسٹورانوں کو اس قانون سے مبرا قرار دیا جائے لیکن فوڈ انسپکٹر اور ضلعی انتظامیہ کی جانب جاری اس کارروائی میں ہر ایک کو ایک ہی آنکھ سے دیکھنے کا جو فیصلہ کیا تھا اسی کے تحت کسی بھی ہوٹل اور ریسٹوران کو نہیں چھوڑا گیا جس کے باعث عوام خوش نظر آتے ہیں لیکن دو نمبریوں کی اوسان خطا ہوگئے ہیں لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر یہی سلسلے جاری رہا تو نہ صرف لوگوں کو معیاری اشیا ء ملتے رہیں گے بلکہ لوگوں کو لگنے والی موضی امراض کا بھی خاتمہ ہوں گے ۔
فوڈ انسپکٹر حسین خان اخونزادہ نے کہا ہے کہ شہر میں کسی بھی دکاندار اور تھوک فروشوں کو عوام کی جان و مال سے کھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے اور غیر معیاری اور ناقص اشیائے خورونوش فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی جاری ہیں اور کریک ڈوان کے اس سلسلے کو جاری رکھا جائے گا تکبیر سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وقتا فوقتا ان دو نمبریوں کے خلاف کارروائی جاری ہیں اورکسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیں گے انہوں نے کہا کہ حفظان صحت کے اصولوں کے تحت ہوٹل کیٹین اور بیکریوں کے کارخانوں میں کام کرنے والے ملازمین کو ہیلتھ سرٹیفیکٹ لازمی قرارد یا گیا ہے اورجس ملازمین کے پاس مذکورہ سند نہیں ہوں گے اس کارخانے کا ہوٹل کو بند کردیا جائے گا ۔ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو معیاری اشیاء فراہم کرنے کا کا بیڑہ اٹھایا ہے اور اسے ایک مشن سمجھ کر انجام دے رہا ہوں اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوگی اور تمام تر مشکلات کے باوجود ہم نے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔

No comments:

Post a Comment