تازہ ترین








آج شام 5 بجے سے 10 بجے تک اور کل 5 بجے سے رات 11 بجے تک موبائل سگنل آف رہینگے .

Wednesday, December 30, 2015

6 ستمبر

تحریر: سید بہادرعلی سالک


یوں تو پاک فوج کا ملکی سلامتی، یکجہتی، دفاع، آزادی، سا لمیت اور جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کیلئے ماضی بڑا سنہرا، تاریخی اور شاندار رہا ہے۔ آزادی کے صرف اٹھارہ
سال بعد ستمبر1965ء میں بھارت کی جانب سے وطن عزیز پر تھوپی گئی جارحیت کا جس بہادری اور شجاعت سے پاک آرمی نے دندان شکن جواب دیا، اُس کی دنیا کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ اس سلسلے میں پوری قوم پاک فوج کی پشت پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی تھی۔1965ء کی جنگ اور بعد کے معرکوں میں پاک فوج کی شجاعت، بہادری اور عظیم قربانیاں تاریخ میں رقم ہوچکی ہیں۔پاک آرمی کا اپنے پیشہ وارانہ فرائض کے علاوہ ملک میں امن وامان کے قیام، زلزلوں ، سیلاب، ٹریفک حادثات میں کلیدی کردار رہا ہے کیونکہ جب تک فوج آگے نہیں آتی ہے ہنگامی صورت حال پر ہرگز قابو نہیں پایا جاسکتا ہے۔ دنیا کے بلند ترین محاذ جنگ (سیاچن) میں 22ہزار فٹ کی بلند ی پر منفی 50ڈگری کی سردی سے لے کر سندھ کے تپتے صحراؤں میں فوج ہی ایک آخری سہارا ہے کیونکہ قدرتی آفات میں فنی، مالی اور انسانی وسائل سے خالی سول انتظامیہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی۔
جہاں تک گلگت بلتستان کا تعلق ہے، ہرحکومت، ہر حکمران اور ہرادارے نے اپنے مخصوص انداز میں علاقے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے قابل تحسین کردار ادا کیا ہے لیکن اگر ان دشوار گزار ، پہاڑی اور دفاعی نوعیت کے حساس ترین علاقوں میں پاک فوج اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ علاقے کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا حصّہ نہ ڈالتی تو آج گلگت بلتستان کا یہ نقشہ کچھ اور ہوتا۔ زلزلے سے پیش آنے والے حادثات ہوں یا سیلاب کی تباہ کاریاں، ٹریفک حادثات ہوں‘سٹرک اور پلوں کی فوری تعمیر ہو،فوج کا کردار نمایاں ہے۔جب گلگت بلتستان میں پہلی مرتبہ 80کے عشرے میں ٹیلی فون کا نظام قائم کیا جارہا تھا تب بھی پاک آرمی کے شعبہ سگنل کے آفیسرزاور جوان ان دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر کام کررہے تھے اور لائنیں نصب کرتے ہوئے درجنوں جوان شہید ہوگئے اور آج تک ایس سی او ہی ٹیلی فون کا نظام کامیابی سے چلا رہی ہے۔ 1980ء کے عشرے میں ہی پاک فوج کے انجینئرز ایف ڈبلیو او نے گلگت سے سکردو تک شاہراہ قراقرم تعمیر کی اور اس سٹرک کی تعمیر کے دوران افسروں اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیالیکن بلتستان کے عوام کے لئے ایک عظیم تحفہ دیااور پہلی مرتبہ ستمبر1980ء میں سکردو میں بسوں کی آمددرفت شروع ہوئی اور ترقی اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ 1989 ء کے دوران ہی سکردو سے گونگما (سیاچن ضلع گانگ چھے) تک سڑک بھی FWOنے برق رفتاری سے تعمیر کی اور یہ سٹرک ایف ڈبلیو او کے جوانوں کی تعمیرکردہ ایک عظیم شاہکار ہے۔ 1983ء میں کمنگو کھرمنگ میں آسمانی بجلی گرنے سے ہونے والی تباہی کے دن ہوں، 2005ء میں غواڑی اور کورو (ضلع گانگ چھے) میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں ہوں، 2010ء میں قمراہ اور تلس کے علاقوں میں ہونے والی سیلابی تباہ کاریاں اور 2011 کے تلس میں دوبارہ آنے والا سیلاب، عطا آباد جھیل کا واقعہ ہو یا 2014ء میں کھرمنگ روڈ پر ہونے والے ٹر یفک حادثات،پاک فوج نے ذمہ دارانہ، مثالی اور عوام دوستانہ کارنامے انجام دیے جو قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی ہے۔ پاک فوج نے 1948ء میں آزادی کے بعد سکردو اور گلگت ہسپتالوں کا نظام بھی سنبھالا جو جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے 2010ء میں سویلین اداروں سے فوجی افسروں کو واپس بلانے کے فیصلے تک جاری رہا اوریہ نظام انتہائی موثر اور نظم وضبط کے لحاظ سے انتہائی قابل تحسین تھا۔ 2010ء کے بعد جب ایم ایس /آرمی سرجن/آرمی سپیشلٹ ڈاکٹروں کو ہسپتالوں سے واپس بلالیاگیاتب سے ہسپتالوں میں نظم وضبط ختم ہوچکا ہے۔ آرمی کی جانب سے آنے والی ادویات کی فراہمی بند ہوگئی ہے۔ صفائی کا وہ نظام جو ایک ڈی ایچ کیو کے شایان شان ہوتا ہے ختم ہوچکا ہے۔ تاہم پاک آرمی کے ہسپتالوں میں اب بھی سویلین مریضوں کا علاج معالجہ مفت ہواکرتا ہے بلکہ مریضوں کے ساتھ آنے والے لواحقین کو بھی مفت کھانا دیا جاتا ہے جن میں گونگما ہسپتال(سیاچن) طوطتی کھرمنگ، منی مرگ (استور) سکسہ -32 ایم ایس ٹی (شیوک سیکٹر) شامل ہیں۔پاک آرمی کی جانب سے لگائے جانے والے فری میڈیکل کیمپس الگ سہولتیں فراہم کررہے ہیں۔ پاک آرمی نے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں نہ صرف اپنی نگرانی میں آرمی پبلک سکولز قائم کررکھے ہیں جہاں معیاری اورجدید تعلیم دی جاتی ہے، ان میں آرمی پبلک سکول جٹیال گلگت، آرمی پبلک سکول دیامر، آرمی پبلک سکول سکردو اور آرمی پبلک سکول خپلو شامل ہیں۔ کیڈٹ کالج سکردو اور پبلک سکول اینڈ کالج سکردو کا اگرنام ہے توصرف حاضر سروس آرمی آفیسرز کی سربراہی کی وجہ سے ہے اور ان تعلیمی اداروں کا نہ صرف گلگت بلتستان میں بلکہ پورے ملک میں بڑا نام ہے۔میں یہاں یکم مئی 1999ء کے اُن یادگاری لمحات اور باتوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں جب راقم پانچ دوسرے صحافیوں کے ساتھ سیاچن کے دورے پر گیا اور رات پاک فوج کے ساتھ گیانگ میں گزاری۔ ایک کپتان کے بازو پر پلستر لگاہوا تھا‘ ہم نے پوچھا: کپتان صاحب کیا ہواکہنے لگا کہ بلندی سے نیچے آتے ہوئے گرا اور بازو ٹوٹ گیا۔ یہ میرا دوسرا ٹینیور ہے اور میں اپنی خوشی اور رضامندی سے وطن عزیز کی خدمت کے لئے دوسری مرتبہ سیاچن کے سخت محاذ پرآیا ہوں۔ اُن کے عزم، حوصلے اور جرأت کو سلام۔ انہوں نے کہا کہ ایک بازو تو کیا سارا جسم بھی وطن عزیز کیلئے ضائع ہوتو بھی مجھے فخر ہے۔ یہ جذبہ ایمانی ، جذبہ اسلام اور جذبہ جہادہے اور یہی وہ بنیاد ہے جس پرمسلمانوں کا ایمان ہے اور شہادت کی تمنا کرتے ہیں۔ یونٹ کے کرنل صاحب نے کہا کہ 18سے22ہزار فٹ کی بلند ی پر جوان اور آفیسرِ اگلومیں رہتے ہیں اور اکسیجن کی کمی اور منفی 50ڈگری کی سردی سے پھیپھڑوں اور دماغ میں پانی بھر جاتا ہے اور اگر اُن کو واپس نیچے نہ لایا جائے تو جان بحق ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، چہرے کا رنگ کالا ہوجاتا ہے اگر احتیاط نہ کی جائے تو بینائی بھی جاتی ہے۔ہاتھ اور پاؤں کی انگلیاں فراسٹ بائیٹ کی وجہ سے کاٹنی پڑتی ہیں اور اتنی بلندی سے واپسی کے بعد جوان اورافسروں کی یاداشت اس حد تک کمزور پڑ جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں، گھروالوں اور ٹیلی فون نمبر تک بھی بھول جاتے ہیں، لیکن وطنِ عزیز کے دفاع کے جذبے سے سرشاریہ جوان اور افسر اپنی رات کی نیندیں اور اپنی صحت کو وطن پر قربان کرتے ہیں اور ہم اپنے اپنے گھروں میں سکون کی نیند سوتے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ ہمیں دشمنوں سے اتناخطرہ نہیں جتنا موسمی حالات اور برفانی تودے گرنے سے ہے۔ اُن کا حوصلہ ، صبر اور جذبہ ایمانی کی داددئیے بغیر نہیں رہ سکتے۔1979ء سے 8جون 2015ء تک گلگت بلتستان میں ہونے والے تمام انتخابات میں بھی فوج کا اہم اور کلیدی کردار رہا۔ خصوصاً اس سال کے الیکشن پاک فوج کی براہ راست نگرانی میں کروائے گئے کیونکہ عوام کی اولین خواہش یہی تھی۔ اس سال کے الیکشن کی غیر جانبداری، شفاف اور آزادانہ بنیادوں پر ہونے کی تصدیق نہ صرف سیاسی پارٹیوں، اُمیدواروں اور ملکی سطح پر کی گئی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس کی تعریف کی گئی۔ اس سال اگر الیکشن فوج کی نگرانی میں نہ کروائے جاتے تو خون خرابے کا بہت بڑا خطرہ تھا کیونکہ2009ء میں گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات میں زبردست دھاندلی ہوئی اور کئی جگہوں پر فائرنگ کے واقعات بھی پیش آئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان جسٹس (ر) سید طاہر علی شاہ نے گلگت بلتستان میں کامیاب ، پُرامن اور شفاف الیکشن کے منعقد ہونے میں پہلا کریڈٹ مسلح افواج کو دیا۔
حالیہ سیلاب سے گلگت بلتستان میں ہونے والی تباہ کاریوں کے بعد بھی پاک فوج نے جو فوری امدادی کارروائیاں شروع کیں اُس کی بھی مثالی نہیں ملتی۔اُدھر سیلاب آیا اِدھر فوج کے افسر اور جوان پکا پکایا کھانا لے کر متاثرین کے پاس پہنچ گئے اور بے یار ومددگار متاثرین کو بے سہارا ہونے کا احساس تک ہونے نہیں دیا۔ ضلعی انتظامیہ انسانی وسائل، فنی سہولتوں اور مالی وسائل سے محروم ہوتی ہے، ایسے میں فوج ہی واحد ادارہ رہ جاتا ہے جو آخری سہارا ہوتا ہے ۔ دونوں اضلاع سکردو اور گانگ چھے میں ڈپٹی کمشنروں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں متاثرین کی مدد کیلئے بروئے کار لائیں اور اُن کی خدمات بھی قابل تحسین ہیں لیکن گلگت بلتستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد امدادی کاموں کی نگرانی براہ راست فورس کمانڈر گلگت بلتستان کرتے رہے سویلین کی طرف سے چیف سیکریٹری گلگت بلتستان بھی انتہائی متحرک رہے ان امدادی کارروائیوں میں بریگیڈ کمانڈر سکردو اور کمانڈر سیاچن بریگیڈ بھی رات دن قابل تحسین کردار ادا کرتے رہے۔ اس بات میں دو رائے نہیں کہ پاک فوج نہ صرف ہماری قومی خود مختاری، سلامتی وخوشحالی کا ضامن ہے بلکہ امن وامان کے قیام اور ترقی وخوشحالی کا بھی ضامن ہے۔


No comments:

Post a Comment