تازہ ترین








آج شام 5 بجے سے 10 بجے تک اور کل 5 بجے سے رات 11 بجے تک موبائل سگنل آف رہینگے .

ایڈیٹوریل

ننھے شہیدوں کو سلام :شکور علی زاہدی

16دسمبر پاکستا ن کی تاریخ میں ایک سیاہ ترین سانحہ سکوت ڈھاکہ سے تعبیر کی جاتا ہے یہ وہی دن تھا جس میں ملک کے دونوں بازو ہمیشہ ک لیے جدا ہوگئے۔ لیکن 2014کے بعد تاریخ پاکستان میں اس دن کو دو حوالوں سے یا د کیا جاتا ہے ایک تو سکوت ڈھاکہ اور دوسرا سانحہ پشاور ۔ 16دسمبر کی صبح پھولوں کا شہر پشاور میں اپنے مکمل حُسن اور آب و تاب کے ساتھ نمودار ہو چکی تھی۔ اور ہر عام و خاص کو یہ خبر تک نہ تھی کہ اس پھولوں کے شہر میں معصوم پھولوں پر دہشت گردوں کی زہر آلود گولیاں چلیں گی اور ان کی مہک ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گی لیکن قوم نے ایک بار پھر سکوت ڈھاکہ جیسا سانحہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ آرمی پبلک سکول پشاور ملک کے دیگر اداروں کی طرح مصروف عمل تھا لیکن ان خاندانوں اور ماؤں کو کیا معلوم کہ چند لمحوں میں ان کے گھر ماتم کدہ بن جائیں گے۔ اور ماؤں کی گود اُجڑ جائے گی ۔16
دسمبر کی صبح ساڑھے دس بجے بچے اپنے روزمرہ معمول کی طرح کلاس کی پڑھائی اور امتحانات میں مصروف تھے کہ اچانک دہشتگروں نے معصوم کلیوں پر گولیاں برسانا شروع کر دیا ۔ انہیں آگ و خون میں نہلاتے رہے ۔ ننھے منھے بچے ان کے ہاتھ میں قلم اور کتاب کے علاوہ کیا تھا۔ خوف کے مارے ادھر اُدھر چیخ و پکار کرتے ہوئے بکھرتے رہے۔ لیکن ان ظالموں کو کوئی رحم نہیں آیا دہشتگردوں نے 130طلبہ کو شہید اور 124 طلبہ کو بے دردی سے زخمی کر دیا ۔ آرمی پبلک سکول خون اور آنسوؤں میں نہلایا ہوا تھا۔ اس سانحہ میں 9اسٹاف نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ اور چار اسٹاف زخمی بھی ہوئے۔ دو خواتین ٹیچر ز کو طلبہ کے سامنے زندہ جلا دیا گیا اور بعد میں زخمی طلبہ میں سے بھی کئی بچے شہادت کے درجے پر فائز ہو گئے ۔ بے شک یہ دہشتگردی کے میدان میں وطن عزیز کا سب سے بڑا دہشتگرد حملہ ضرور تھا لیکن کسی کو کیا معلوم کہ ان ننھے معصوموں کا خون کیا رنگ لائے گا ۔ میرے خیا ل کے مطابق شاید دہشتگردوں کی یہ سب سے بڑی غلطی تھی اور یہی غلطی ان کا آخری انجام بھی ثابت ہوئی ۔ کیوں کہ گزشتہ 6سالوں میں 42ہزار پاکستانی شہید ہونے کے باوجود پوری قوم دہشتگردوں کے خلاف ایک صف میں کھڑی نہیں ہوئی تھی ۔ لیکن معصوم بچوں کے خون نے ملک کے پورے نظام کو مجبور کر دیا کہ وہ اب تمام تر مصلحتوں سے نکل کر دہشت گردوں کے خلاف باہر نکل آئے اور یہی بچوں کی قربانی ہی شاید آپریشن ضرب عضب کا سبب بنی۔ سلام ہو ان ننھے بچوں پر جنہوں نے قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر دیا ۔ سلام ہو ان ننھے پھولوں پر جو خود تو شہید ہوئے لیکن دوسروں کو جینے کا سلیقہ سکھایا ۔ سلام ہو جن پر جنہوں نے اپنے مستقبل کو ہمارے مستقبل پر قربان کر دیا۔ سلام ہو قوم کے ان بیٹوں پر جنہوں نے پوری قوم کو بیداری کا پیغام دیا۔ سلام ہو ان معصوم طلبہ پر جنہوں نے اپنی قلم کو ہتھیار کے اوپر ہاوی کر دیا۔ سلام ہو ننھے شہیدوں پر جنہوں نے پاکستان کے اوپر ہمیشہ ایک احسان کیا کہ ملک اگر قربانی مانگے تو اس طرح قربانی دی جاتی ہے ۔ سلام ہو ان راہ حق کے پیروکاروں پر جنہوں نے کربلا کے ننھے شہید حضرت علی اصغرؑ کے نقش قد م پر چلتے ہوئے زمانے کے باطل کو ایک بار پھر شکست سے دو چار کر دیا۔ سلام ہو اللہ کے ان پیاروں پر جنہوں نے شہادت کا وہ مقام حاصل کیا جو ہر ایک کی قسمت میں کہاں ملتا ہے۔ کیوں کہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا کہ جو طالب علم حصول علم کے دوران وفات ہو جائے تو وہ شہید ہے۔ سلام ہو ان آنکھوؤں کے ٹھنڈک پر جنہوں نے خود تو شہادت کا مقام حاصل کیا لیکن والدین کا سر فخر سے بلند کر دیا ۔ سلام ہو وطن کے ان محافظوں پر جنہوں نے جان کا نظرانہ پیش کر کے ہمیں ملک کی حفاظت کا سلیقہ سکھایا۔ سلام ہو ان بے سہاروں اور بے یارو مدد گاروں پر جنہوں نے ملک کے کروڑوں بچوں کو سہارا دینے پر مجبور کر دیا۔ سلام ہو ننھے منھے چراغوں پر جو خود تو بجھ گئے لیکن دوسروں کے لیے ہمیشہ روشنی محیا کیا ۔ سلام ہو ان رنگ برنگے پھولوں پر جو خود تو مرجھا گئے لیکن ہمارے لیے خوشبو پہنچاتے ہوئے چلے گئے۔ سلام ہو ان ننھے شاہینوں پر جو خود تو ہمیشہ کے لیے پرواز کر گئے لیکن دوسروں کو بھی بلند ہمتی کا درس دیا ۔ سلام ہوان ماؤں کے محبتوں پر جو خود تو ممتاکی محبت سے محروم ہو گئے لیکن اہل وطن کے دلوں میں اپنے لیے محبت پیدا کر کے چلے گئے۔ سلام ہو ان بہادروں اور دلیروں پر جنہوں نے دہشت گردوں کو ایسا شکست دیا کہ آج ان کو چھپنے کے لیے جگہ میسر نہیں ہے۔ سلام ہو اہل وطن کے ان ننھے تاروں پر کہ چاند اور سورج بھی ان کی دھیمی روشنی پر عاجز آگئے ۔ سلام ہو حُسن کے نکھاروں پر جنہوں نے سب کو اپنی جانب متوجہ کر نے پر مجبور کر دیا۔ سلام ہو ان چمکتے ہوئے دانوں پر جو خود تو بکھر گئے لیکن اہل وطن کو ایک تسبیح میں پرویا ۔ سلام ہو ان مہکتی کلیوں کو جو صدا بہار ہونے سے پہلے خزاں کا نذر ہوئے سلام ہو ملت کے ان امیدوں پر جن کی بدولت آج امن کی امید ممکن ہوئی ۔ سلام ہو پاک وطن کے ان باغبانوں پر جو اپنا فرض نبھاتے ہوئے باغ ارم کے گلزار بن گئے۔ سلام ہو ان معصوم لا شعوروں پر جو دوسروں کو شعور دینے کا سبب بنے ۔ سلام ہو علم کے ان چراغوں پر جو اپنی دیا کو گھر گھر پہنچانے میں کامیاب ہوئے ۔ سلام ہو حکمت کے ان خزانوں پر جن کی بدولت قوم ترقی کی جانب گامزن ہوئی۔ سلام ہو علم و دانش کے ان پیاسوں پر جو خود تو جی بھر کر سیراب نہیں ہوئے لیکن دوسروں کو چشمہ علم سے سیراب ہونے کا راستہ دکھایا۔ سلام ہو ان ناموں پر جو علم کے چشموں سے منسوب ہوئے۔ سلام ہو وفا کے ان تصویروں پر جنہوں نے وفا نبھانے کا درس دیا ۔ سلام ہو انسانیت کے ان علمبرداروں پر جنہوں نے پوری انسانیت میں ہمدردی کا جزبہ پیدا کر دیا۔ سلام ہو ان ننھی جانوں پر جو خود تو بہت نازک تھے لیکن دوسروں کے جانوں میں طاقت کا مادہ پیدا کر دیا۔ سلام ہو اہل قلم کے پیروکاروں کا جنہو ں نے قلم چلانے کا سلیقہ سکھایا۔ اور سلام ہو ماضی کے ان یادگاروں پر جنہوں نے حال اور مستقبل کو ایک نیا ولولہ مہیا کیا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہم شہدائے پشاور کے ان جذبات ، کارنامے اور قربانیوں کو جتنی بھی خراج عقیدت اور تعزیت پیش کریں کم ہے کہ وہ وطن عزیز کے ایسے معصوم شہید ہیں جن کا نہ تو کوئی جرم تھا اور نہ ہی کوئی گناہ۔ وہ تمام تر نفرتوں اور مصلحتوں سے پاک تھے۔ اور انہوں نے وطن عزیز کی حفاظت کے لیے وہ جذبہ پیش کیا جن کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔جس کی وجہ سے تاریخ پاکستان نے ایک نیا موڑ جنم لیا ہماری دعا ہے کہ خالق کائنات ان تمام شہیدوں کے لواحقین کو صبر و جمیل عطا کرے اور شہدا کے قربانیوں کو اپنی درگاہ میں قبول و مقبول فرمائے ۔ آمین ۔

شیرعلی انجم

تقسیم گلگت بلتستان کی سازش

قوموں کی زندگی میں اُتار چڑھاو کا آنا کوئی بڑی بات نہیں لیکن کوئی قوم غافل رہے، اپنے حقوق کی جدوجہد کو 
 امن اور معاشرے کے لیے نقصان دہ سمجھ کر خاموش رہے اور کوئی آ کر اس قوم کو دو لخت کرنے کی سازش شروع کر دے تو یقیناً وہ قوم اپنی تاریخ، شناخت اور اہمیت سے ناواقف اور بے بہرہ ہے۔ گلگت بلتستان کی تاریخ کا اگر انقلاب گلگت بلتستان سے لے کر آج تک کے دور کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم تاریخی شعور سے محروم ہونے کے باعث ہی آج تک اپنی شناخت اور حقوق سے محروم رہے ہیں۔ یہی لاعلمی ہے جس کی وجہ سے ہم آج تک اپنی جدوجہد کے ثمرات حاصل نہیں کر سکے۔ ہمارے قومی ہیرو کرنل مرزا حسن خان مرحوم کو کئی بار سلاخوں کے پیچھے صرف اس لیے دھکیلا گیا کیوں کہ اُنہوں نے عوام کوان کے حقوق سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ آج بھی ہمارے ہاں یوم آزادیِ گلگت بلتستان سرکاری طور پر منایا جاتا ہے جو کرنل مزرا حسن خان اور ان کے ساتھیوں کی عظیم قربانیوں کے لیے ایک خراج تحسین ہے۔
جو نظام اس وقت گلگت بلتستان میں نافذ ہے پاکستان کے وفاقی اور آئینی بندوبست میں اس نظام کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ دستور پاکستان میں اس نظام کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ گلگت بلتستان کا سیاسی ڈھانچہ ایک صدارتی حکم نامے کے سہارے کھڑا ہے۔
افسوس گزشتہ اڑسٹھ سالوں سے حسن خان کی سرزمین کو آئین اور قانون کے دھارے سے باہر رکھ کر ہمارے رہنما اور عوام اس بات کی رٹ لگائے رکھتے ہیں کہ ہم نے الحاق کیا تھا۔ یہ مغالطہ عام ہے کہ ہمارے آباواجداد نے قربانیاں دے کر اس خطے کو پاکستان میں شامل کرایا تھا۔ یہ تاریخی غلطی کہ ہم اپنے خطے کا ماضی کرنل حسن خان کی بجائے سردار عالم اور میجر بروان سے جوڑ رہے ہیں، ہماری اس خوش فہمی کی بنیاد ہے کہ کبھی نہ کبھی ہم گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی صوبہ بننے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہماری تمام تر خوش فہمیوں کے برعکس پاکستان میں ایک طرف تو اس معاملے کو کشمیر کے ساتھ نتھی کر دیا گیا اور دوسری طرف اس علاقے کی جغرافیائی حدود میں تبدیلی کی حمایت بھی شروع کر دی گئی ہے۔ گلگت بلتستان کی تقسیم کا معاملہ اس علاقے کی جغرافیائی، دفاعی اور تجارتی اہمیت میں مزید سنگین شکل اختیار کرلیتا ہے۔ وفاق اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ یہاں کے حکمران اس قابل نہیں کہ وہ اس فیصلے کے خلاف کوئی بھرپور ردعمل پیش کر سکیں۔ اگر دیانت دارانہ تجزیہ کیا جائے تو جو نظام اس وقت گلگت بلتستان میں نافذ ہے پاکستان کے وفاقی اور آئینی بندوبست میں اس نظام کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ دستور پاکستان میں اس نظام کو کوئی تحفظ حاصل نہیں۔ گلگت بلتستان کا سیاسی ڈھانچہ ایک صدارتی حکم نامے کے سہارے کھڑا ہے۔
آئین کا حصہ نہ ہونے کی وجہ سے وفاقی حکومت گلگت بلتستان کے نظام میں کسی بھی قسم کی ترمیم کرنے کے لیے وفاق ان ترامیم کی منظوری کے لیے سینٹ اور قومی اسمبلی کا محتاج نہیں۔ وفاق جب بھی محسوس کرتا ہے کہ اس کے مفادات کو زد پہنچنے کا خدشہ ہے تو مرکزی حکومت گلگت بلتستان کے معاملے پر فوراً اپنا موقف تبدیل کر لیتی ہے۔ اقتصادی راہداری کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے وفاقی حکومت نے اس مسئلے کو حل کرنے کی بجائے اس علاقے کو ہی تقسیم کرنے کی تجویز پر غور شروع کر دیا ہے۔ گلگت بلتستان کو قانونی حیثیت دینا ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے لیکن اس ضمن میں یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ہندوستان بھی اس علاقے کو اپنا حصہ سمجھتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اُس وقت ہوا جب ہم نے گلگت بلتستان کے حوالے سے ہندوستان کے ایک مشہور چینل پر پرائم ٹائم پروگرام دیکھا۔ پروگرام میں میزبان اور مہمان یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ بھارت گلگت بلتستان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے اور گلگت بلتستان کو جو حقوق پاکستان نے نہیں دیئے، بھارت دینے کے لیے تیار ہے۔ پروگرام میں شریک پاکستانی تجزیہ نگاروں کا گلگت بلتستان کے حوالے سے لاعلمی اور خاموشی لمحہ فکریہ ہے۔
اس صورت حال میں پاکستان کے حکمرانوں کو سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام اپنے خطے کی غیر آئینی حیثیت کے باوجود بھی پاکستان میں شامل ہونے کے خواہاں ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ پاکستان اس خطے کے حوالے سے ہمیشہ پس و پیش سے کام لیتا آیا ہے۔ درحقیقت وفاقی حکومت کی انتظامی مشینری پر ایک ہی صوبے کا غلبہ ہے جو اس خطے کو کشمیر کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کا قائل ہے۔
تقسیم گلگت بلتستان کسی بھی طرح نہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی یہاں کے سیاسی مسائل کا درست آئینی حل۔ ایسے ہی غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے پاکستان ماضی میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے بیج بو چکا ہے، کیا اب مقامی آبادی کو بھی بلوچوں کی طرح مسلح مزاحمت کے ذریعے اپنی بات وفاق تک پہنچانا ہو گی؟
گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت میں ہمارے وزیراعلیٰ سے لے کر ان کی کابینہ کے کسی رکن تک کو گلگت بلتستان کی تقسیم کی مبینہ تجویز کی سنگینی کا اندازہ تک نہیں۔ قاری حفیظ اپنے کئی ٹی وی انٹرویوز میں اس بات کی طرف اشارہ کر چُکے ہیں کہ خطے کومسلکی اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لیے عوامی مطالبات موجود ہیں۔ استور کے ایک مولوی صاحب کے افشاء کرنے پر یہ ہانڈی بیچ چوراہے پھوٹی ہے وگرنہ تو اس حوالے سے عوام یا ان کے منتخب نمائندوں کو اعتماد میں لینے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اس خبر کے دوسرے دن سپیکر اعلان کرتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو ہم برداشت نہیں کریں گے۔ قاری حفیظ نے گلگت بلتستان کے کچھ حصے یعنی ہنزہ، نگر، گلگت اور یاسین کو ماضی میں ان علاقوں کے کشمیری راجاوں سے نام نہاد الحاق کی بنیاد پر بلتستان ریجن اور استور کو کشمیر میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ گلگت بلتستان کے علاقوں کو کشمیر میں شامل کرنے کے حوالے سے عوام کو باشعور بنانے کی ضرورت ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بلتستان سے تعلق رکھنے والے تمام اراکیں قانون ساز اسمبلی قاری حفیظ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاتے ہیں یا قانون ساز اسمبلی اسے استعفیٰ دے کر ریاست کے جعرافیے کو بچانے اور اقتصادی راہدری میں مناسب حقوق دلانے کے لیے عوام کوسڑکوں پر لے کر آتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی تقسیم کی بات کرنے والا وزیراعلیٰ یقیناً اپنے لوگوں اور اپنے خطے کا غدار ہے۔ گلگت بلتستان ایک اکائی ہے اور یہاں کے لوگ اس علاقے کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔ تقسیم گلگت بلتستان کسی بھی طرح نہ پاکستان کے مفاد میں ہے اور نہ ہی یہاں کے سیاسی مسائل کا درست آئینی حل۔ ایسے ہی غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے پاکستان ماضی میں مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے بیج بو چکا ہے، کیا اب مقامی آبادی کو بھی بلوچوں کی طرح مسلح مزاحمت کے ذریعے اپنی بات وفاق تک پہنچانا ہو گی؟


شہید بابری مسجد تاریخ کے آئینے میں
ہندوستان مسلم آبادی کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے ایک اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بھارت میںپچیس کروڑ کے قریب مسلمان آباد ہیں۔


جامعہ کراچی کی ڈائری

No comments:

Post a Comment