تازہ ترین








آج شام 5 بجے سے 10 بجے تک اور کل 5 بجے سے رات 11 بجے تک موبائل سگنل آف رہینگے .

Saturday, October 23, 2021

پاکستان سپورٹس بورڈ اور گلگت بلتستان سپورٹس بورڈ کے زیر اہتمام آل پاکستان انڈر 17 بوائز فٹبال ٹورنامنٹ 2021 کا باقاعدہ افتتاح ہوگیا

پاکستان سپورٹس بورڈ اور گلگت بلتستان سپورٹس بورڈ کے زیر اہتمام آل پاکستان انڈر 17 بوائز فٹبال ٹورنامنٹ 2021 کا باقاعدہ افتتاح ہوگیا۔وزیر سیاحت،ثقافت،کھیل و امور نوجوانان گلگت بلتستان راجہ ناصر علی خان ایونٹ کے مہمان خصوصی تھے۔افتتاحی تقریب لالک جان شہید نشان حیدر اسٹیڈیم جوٹیال گلگت میں منعقد ہوئی۔افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی وزیر سیاحت و ثقافت راجہ ناصر علی خان نے کہا کہ کھیلوں کے انعقاد سے معاشرے صحت مند رہتے ہیں۔کھیلوں کے انعقاد سے اخوت،محبت و بھائی چارگی کو فروغ دیا جائے۔ایسے ایونٹس کے انعقاد کا مقصد علاقے میں کھیلوں کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان میں سیاحت کے فروغ دینا ہے۔صوبائی وزیر کا مزید کہنا تھا کہ یکم نومبر جشن آذادی گلگت بلتستان کے موقع پر بھی مختلف کھیلوں کا انعقاد کیا جائے گا۔اس موقع پر سیکریٹری سیاحت و ثقافت ظفر وقار تاج نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم گراؤنڈز کو دوبارہ آباد کرنے جارہے ہیں۔انہوں نے کھیلوں کو فروغ دینے اور صحت مندانہ سرگرمیوں کے انعقاد کے حوالے سے عوام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ والدین اپنے بچوں کی بہتر صحت اور نشونما کی خاطر کھیلوں اور ورزش کو معمول بنایا کریں۔اس طرح کے ایونٹس میں والدین خصوصی طور پر اپنے بچوں کو لے کر آئیں اور صحت مندانہ سرگرمیوں میں شامل کرائیں تاکہ بچے موبائل اور دیگر سوشل میڈیا سے نکل کر اپنی اچھی صحت کی فکر کرسکیں ۔انہوں نے نوجوانوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ کھلی فضا میں قدرتی مناظر سے لطف اندوز رہیں اور اپنی ذہنی نشونما کی بہتری کیلئے وقت ضرور نکالیں۔یاد رہے کہ اس ایونٹ میں پنجاب،خیبرپختونخوا، آذادجموں اینڈکشمیر،سندھ،بلوچستان اور گلگت بلتستان کی ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں اور یہ ایونٹ 25 اکتوبر تک جاری رہیں گے۔

Friday, October 22, 2021

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی خصوصی ہدایت پر گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں *چھاتی کے کینسر* کے حوالے سے سہہ روزہ آگہی مہم باقاعدگی سے جاری،

 گلگت۔
وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کی خصوصی ہدایت پر گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں *چھاتی کے کینسر* کے حوالے سے سہہ روزہ آگہی مہم باقاعدگی سے جاری،چھاتی کے سرطان جیسی مہلک بیماری سے آگہی کیلئے تمام ڈسٹرکٹ و ریجنل ہسپتالوں کے عملے کی جانب سے ریلیاں نکالی جارہی ہیں۔۔۔
مختلف سکولز و کالجز کی طالبات بھی الگ سے ریلیوں کا انعقاد کررہی ہیں۔تفصیلات کے مطابق پورے پاکستان کی طرح گلگت بلتستان بھر میں بھی *چھاتی کے کینسر* کے حوالے سے سہہ روزہ آگہی مہم باقاعدگی سے جاری ہے،وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان کی خصوصی ہدایت پر گلگت بلتستان کے 10 اضلاع میں چھاتی کے کینسر سے متعلق آگہی مہم زور و شور سے جاری ہے،تمام ڈسٹرکٹ و ریجنل ہسپتالوں میں سیمینارز،ورکشاپس کا انعقاد کیا جارہا ہے۔۔۔
چھاتی کے کینسر کے حوالے سے مقررین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خواتین میں کینسر کے 44 فیصد کیسز چھاتی کے کینسر کے ہیں جلد تشخیص ہونے سے مرض سے نجات پانے کا امکان 98 فیصد ہوتا ہے-طبی ماہرین نے اپنے اپنے پروگرامز میں کہا کہ معاشرے میں ممنوع موضوع ہونے کی وجہ سے خواتین مرض کی جلد تشخیص نہیں کروا پاتی ،۔۔۔
جلد تشخیص نہ ہونے کی وجہ سے چھاتی کے کینسر میں مبتلا 50 فیصد خواتین جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں-ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین کو ہر تین ماہ میں ایک مرتبہ اپنا معائنہ خود کرنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، آگاہی نہ ہونا، دیر سے ڈاکٹر سے رجوع چھاتی کے کینسر سے زیادہ شرح اموات کا باعث ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اکتوبر کا مہینہ خواتین میں چھاتی کے سرطان کے خلاف شعور اجاگر کرنے کے لیے منایا جاتا ہے ۔۔۔
تاکہ اس مرض سے متعلق آگاہی فراہم کر کے خواتین کو اس بیماری سے بچایا جاسکے۔پاکستان میں عموماً خواتین اس مرض کی علامات کے باوجود ڈاکٹروں سے رجوع نہیں کرتیں، جس کی وجہ سے یہ سرطان خطرناک صورت حال اختیار کر لیتا ہے۔ماہرین صحت کے مطابق ہر سال پاکستان میں ہزاروں خواتین اس مرض کی تشخیص سے متعلق آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔خواتین فوری طور اپنے معالج کے مشورے پر عمل کریں۔۔
 تاکہ ابتدائی مرحلے ہی میں کسی خطرناک صورت حال کو کنٹرول کیا جا سکے۔مہرین صحت کے مطابق ابتدائی شکایت کی صورت میں چھاتی کا کینسر قابل علاج ہے، اور بر وقت تشخیص و علاج مریض کو خطرناک صورت حال سے بہ آسانی نکالنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

Sunday, August 30, 2020

کمشنر گلگت ڈویژن عثمان احمد سے عاشورہ جلوس سے آئے ہوے منتظمین کی ملاقات

 کمشنر گلگت ڈویژن عثمان احمد سے  عاشورہ جلوس سے آئے ہوے منتظمین نے ملاقات کیں اور حکومت گلگت بلتستان کیطرف سے اٹھائے جانے والے انتظامات کی تعریف کیں۔ اس موقعے پر کمشنر گلگت ڈویژن عثمان احمد نے انتظامیہ کے ساتھ قابل تعریف تعاون کرنے اور ساتھ دینے کا شکریہ ادا کیا۔

Saturday, August 29, 2020

حکومت تمباکو نوشی سمیت دیگر نشہ آور اشیاء کے خلاف قوانین پر عمل درآمد کروانے میں اپنامثبت کردار ادا کرے۔ کرنل (ر) امتیازالحق صدر اسماعیلی ریجنل کونسل ہنزہ


ہنزہ (رحیم امان)تمباکو سے پاک گلگت بلتستان مہم  نئی نسل کو تمباکو نوشی جیسے لعنت سے دور رکھنے میں اہمیت کا حامل ہے، اپنی آئندہ نسل کو تمباکو نوشی سے لعنت سے دور رکھنے کے لیے سب کو ملکر عملی کو ششوں کی ضرورت ہے،حکومت تمباکو نوشی سمیت دیگر نشہ آور اشیاء کے خلاف قوانین پر عمل درآمد کروانے میں اپنامثبت کردار ادا کرے۔ کرنل (ر) امتیازالحق صدر اسماعیلی ریجنل کونسل ہنزہ

تمباکو سے پاک گلگت بلتستان مہم  نئی نسل کو تمباکو نوشی جیسے لعنت سے دور رکھنے میں اہمیت کا حامل ہے، اپنی آئندہ نسل کو تمباکو نوشی سے لعنت سے دور رکھنے کے لیے سب کو ملکر عملی کو ششوں کی ضرورت ہے،حکومت تمباکو نوشی سمیت دیگر  نشہ آور اشیاء کے خلاف قوانین پر عمل درآمد کروانے میں اپنامثبت کردار ادا کرے، ان خیالات کے اظہار کرنل (ر) امتیاز الحق نے سیڈو گلگت بلتستان ہنزہ کے نمائندے اسلم شاہ سے ”تمباکو نوشی سے پاک ہنزہ مہم         “  کے حوالے سے شیعہ امامی اسماعیلی ریجنل کونسل علی آباد ہنزہ میں منعقد ایک میٹنگ میں کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان اسمبلی سے حالیہ منظور شدہ ایکٹ کے تحت گلگت بلتستان اور ضلع ہنزہ میں اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کو تمباکو نوشی دیگر  اور نشہ آور اشیاء کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ہنزہ کی جماعت ان قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بناکراپنے بچوں کو سگریٹ نوشی اور منشیات کی لعنت سے بچائیں۔انہوں نے مزید کہاکہ  اپنی آئندہ نسل کو منشیات سے بچانے کے لیے آج ہم سب نے ملکر ان کوششوں میں شامل ہونے کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر انہوں حکومت اور انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ نئی نسل کو منشیات سے دور رکھنے کے حوالے سے ہماری حکومت اور انتظامیہ سے گزارش ہوگی کہ ضلع ہنزہ میں متعلقہ قوانین پر عمل درآمد کرواکر آئندہ نسل کو تمباکو نوشی جیسے بنیادی نشے سے دور رکھنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے۔

اس سے بیشتر سیڈو گلگت بلتستان کے نمائندے اسلم شاہ نے تمباکو سے پاک گلگت بلتستان کے حوالے سے کرنل (ر) امتیازالحق صدر اسماعیلی ریجنل کونسل ہنزہ تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ حکومت گلگت  بلتستان اور سیڈو گلگت بلتستان کی مسلسل کو ششوں کے باعث انسداد تمباکو ایکٹ 2020 گلگت بلتستان اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد گورنر گلگت بلتستان کی منظوری کے بعد گزٹ آف پاکستان میں شامل ہو کرباقاعدہ قانون کی شکل اختیار کرگئی ہے۔اس ایکٹ کے تحت ا گلگت بلتستان میں ا ٹھارہ سال سے کم عمرکے بچوں کو کسی بھی قسم کے تمباکو نوشی سے متعلق اشیاء کی فروخت و استعمال پر پابندی عائد ہے، اور کسی بھی تعلیمی اور صحت کے ادارے کے اطراف میں دو سو میٹر کے فاصلے تک تمباکو نوشی سے متعلق کاروبار کرنے اور تمباکو نوشی کرنے پر پابندی ہوگی،اور تمباکو نوشی کے اشیاء کا کاروبار کرنے والے دکانداروں کے لائسنس حاصل کرنا لازمی ہوگا۔اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ نئی نسل کو اس لعنت سے دور رکھنے کے لیے سیڈو گلگت بلتستان گلگت بلتستان کے تمام مذہبی اور سماجی اداروں کے ساتھ ملکر کوشاں ہے۔

یاد رہے کہ گلگت بلتستان اسمبلی کے انسداد تمباکو نوشی ایکٹ پاس کرنے اور گورنر گلگت بلتستان کی دستخط کے بعد ایکٹ باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کرچکی ہے سیڈو کی اس کاوش کوگلگت بلتستان کے تمام مذہبی اور سماجی اداروں کی جانب سے سراہا جا رہا ہے، اور دیگر منشیات کے خلاف بھی اسی طرز کی قانون سازی اور مہم پر زور دی جا رہی ہے۔

دیامر میں پیدا ہونے والی سیلابی صورت حال، نقصانات اور سڑکوں کی بحالی کے سلسلے میں حکومت تمام وسائل بروے کار لا رہی ہے,نگران وزیراعلی

 گلگت(پ۔ر)  نگران وزیر اعلی گلگت بلتستان ڈی۔ائی۔جی(ر) میر افضل نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ گلگت بلتستان بالخصوص دیامر میں پیدا ہونے والی سیلابی صورت حال، نقصانات اور سڑکوں کی بحالی کے سلسلے میں حکومت تمام وسائل بروے کار لا رہی ہے۔ ڈی۔جی ڈیزاسٹر مینجمنٹ گلگت بلتستان، انتظامیہ اور دیگر متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کی جا چکی ہیں کہ وہ عوامی مشکلات دور کرنے کیلئے تمام تر توانائیاں اور وسائل صرف کریں۔ چلاس تا گلگت مختلف مقامات پر شاہراہ قراقرم کی بحالی کا کام جاری ہے جس میں ایف۔ڈبیلو۔ او کا بھی تعاون حاصل ہے۔ ضلعی دیامر کے  .  .  انتظامی افسران تتہ پانی اور لال پڑی کے مقامات پر ہونے  .  والے نقصانات کا نہ صرف فزیکل مانیٹر کر رہے ہیں بلکہ .  .  زخمیوں کو ریجنل ہیڈ کوارٹر ہسپتال منتقل بھی کر  چکے  ہیں جہاں ان کی طبی امداد جاری ہے اس کے علاوہ گزشتہ دن سے مجسٹریٹ اور اسسٹنٹ ڈاریکٹر ڈیزاسٹر مینجمنٹ دیامر اپنا عملہ اور مشینری کے ہمر . .  .  .  .  .  

Friday, August 28, 2020

حکومتی وفد نے محرم الحرام میں بین المسالک بھائی چارہ کیلئے اسماعیلی ریجنل کونسل کے صدر فدا علی ایثار اور دیگر سے ملاقات کی۔

گلگت(پ۔ر) نگران وزیر اعلی گلگت بلتستان میر افضل کی خصوصی ہدایت پر حکومتی وفد نے محرم الحرام میں بین المسالک بھائی چارہ کیلئے اسماعیلی ریجنل کونسل کے صدر فدا علی ایثار اور دیگر سے ملاقات کی۔ وفد میں وزیر جنگلات مولانا سرور شاہ، وزیر زراعت شوکت رشید، وزیر تعلیم و تعمیرات عبد الجہان، وزیر معدنیات جوہر علی راکی اور ترجمان وزیر اعلی فیض اللہ فراق شامل تھے۔ وفد نے مرکزی جماعت خانہ گلگت میں اسماعیلی ریجنل کونسل کے اراکین سے ملاقات کی اس موقع پر وزیر جنگلات مولانا سرور شاہ نے وفد کی قیادت کرتے ہوئے کہا کہ ہم وزیر اعلی گلگت بلتستان کی خصوصی ہدایت پر گلگت بلتستان میں قائم پائدار امن کو مزید آگے بڑھانے کیلئے آئے ہیں اور جس طرح اسماعیلی ریجنل کونسل نے ہر دور میں گلگت بلتستان میں امن کے قیام کیلئے مربوط کوششیں کرتے ہوئے ثالثی کا کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ کا روشن حوالہ ہے۔ وزیر جنگلات نے مزید کہا کہ ہمیں امن کو صرف ضرورت نہیں بلکہ مقصد حیات بنا کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ محرم کا مہینہ صبر، امن، بھائی چارہ اور سچ اور جھوٹ میں تفریق کا درس دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت اپنی بساط سے بڑھ کر علاقے میں امن کے حوالے سے کوششیں کرے گی مگر بطور اس خطے کے فرزند ہمیں مل کر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے فرائض کا تعین کرنا چاہئے۔ اسماعیلی ریجنل کونسل کے صدر الواعظ فدا علی ایثار نے اس موقع پر حکومتی وفد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کی تشریف آوری کو بہتر ماحول اور بھائی چارے کی جانب ایک قدم قرار دیا، انہوں نگران وزیر اعلی میر افضل کی خصوصی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میر افضل ایک امن پسند اور علاقے سے محبت رکھنے والی شخصیت ہیں موصوف پہلے خود چل کر ہمارے پاس آئے تھے اور اب حکومتی وفد بھیج کر ہمارے حوصلے بلند کئے ہیں۔ فدا علی ایثار نے حکومتی اقدامات کی بھی تعریف کی اور حکومت کے ساتھ تمام اچھے اور مثبت امور پر ساتھ دینے کی بھی یقین دہانی کرائی۔ انہوں نے کہا اسلام میں معمول کی عبادات سے امن کے قیام کیلئے کوششیں زیادہ افضل ہیں۔ گلگت بلتستان ایک گھر کے مانند ہے ، یہاں کے باسیوں کو یہ ادارک ہونا چاہئے کہ گھر کا ماحول پرامن رکھنے کیلئے برداشت اور اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کے وجود کو قبول کریں۔ اختلاف معاشرے کا حسن ہوتے ہیں جبکہ مخالفت دلیل سے عاری رویہ ہے جہاں سے نفرتیں جنم لیتی ہیں۔ محرم الحرام کا مہینہ مسلمانوں کی تاریخ کا وہ دورانیہ ہے جس میں اسلام کی سربلندی ہوئی ہے۔ اس مہینے کی حرمت کو سمجھتے ہوئے واقعہ کربلا کی اصل روح کو اجاگر کریں۔۔۔

Monday, May 16, 2016

عالمی اہمیت کا حامل گلگت شہر کی خستہ حالی تحریر: اسرارالدین اسرار

گلگت تا ریخی اور بین الاقوامی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ یہ شہر صد یوں پہلے بھی اس خطے کا دارالحکومت تھا اور آج بھی ہے۔ یہ شہر صدیوں پہلے سے عالمی طاقتوں کی توجہ کا مر کز بھی رہا ہے۔ ماضی بعید میں جب یہ خطہ شیناکی کوہستان سے لے کر کاشغر تک اور لداخ سے لیکر چترال اور بدخشان تک مختلف ادوار میں بروشال، دردستان اور بلورستان کے نام سے ایک وحدت تھا اس وقت بھی اس شہر کو مرکزی حیثیت حا صل تھی اور اس پورے خطے پر حکمرانی کرنے والے لوگوں کا تخت بادشاہت گلگت ہوا کرتا تھا۔ مگر عالمی منظر نامے میں یہ شہر اس وقت آیا جب اْس وقت کی بہت بڑی عالمی طاقت بر طانیہ اور روس کی اس خطے پر نظر پڑی ، روس اس خطے کے توسط سے ہندوستان میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ اس غرض سے روس پامیر تک پہنچ چکا تھا۔ مگر برطانیہ نے روس کو اس خطے پر قابض ہونے کا موقع نہیں دیا اور1840 کے بعد انگریز نے اس خطے کا رخ کر لیا ، اس دوران انگریز وں کے نمائندے جارچ ڈبلیو ہیورڈ اورکرنل جان بڈلف سمیت برطانیہ کے کئی اہم نمائندے یہاں آ تے رہے ۔ 1879میں انگریزوں نے یہاں اپنی ایجنسی پہلی دفعہ قائم کر کے1881 پھر اس کو توڈ دیا۔ اس دوران یہاں ڈوگرہ حکمران تھے اور انہوں نے انگریزوں کو اس خطے میں نقل و حرکت کی مکمل آزادی دی ہوئی تھی۔ اس خطے کی بڑتی ہوئی اہمیت کے پیش نظر 1889 میں برطانیہ نے پھر اس علاقے کی طرف توجہ دیا اور کر نل الجیرین ڈیورانڈ کی مدد سے یہاں با ضابطہ ایجنسی قائم کر دی۔ اس کے بعد اس شہر گلگت اور اس پورے خطے کی اہمیت عالمی سطح پر بڑھ گئی۔ یہاں تک کی5 193میں ایک معاہدے کے تحت انگریزوں نے اس خطے کو ساٹھ سالہ لیز پر ڈوگروں سے اٹھا لیا اور مکمل طور پر اپنے قبضے میں رکھا۔ اس دوران اس شہر کی اہمیت مزید بڑھ گئی تھی اور عالمی طاقتیں اس کی ہر سرگرمی سے واقف تھیں۔ پھر تقسیم ہند کے وقت بحالت مجبوری انگریز یہاں سے رخصت ہوا مگر ساتھ ساتھ اس خطے کو مستقبل کے اپنے مقاصد کی تکمیل کے پیش نظر متنازعہ حیثیت دے کر گیا۔اس شہر اور مجموعی طور پر اس خطے کی یہی اہمیت ہے جس کی وجہ سے اس پردرجنوں عالمی شہرت یافتہ لکھاریوں اور محققین نے متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ اس تمہید کے باندھنے کا مقصد قارئین کو تاریخ میں الجھانا نہیں ہے بلکہ اس شہر گلگت کی تاریخی اہمیت بتانا ہے۔ مذکورہ حقائق کی روشنی میں گلگت شہر کی تاریخی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔ اس شہر کی اہمیت آج بھی کم نہیں ہوئی ہے چنانچہ آج بھی یہ شہر اتنا ہی عالمی اہمیت کا حامل ہے جتنا صدیوں پہلے تھا۔ دور جدید میں اکنامک کوریڈو ر، اس پورے خطے اور گلگت شہر کی اہمیت کو دوبالا کرتا دیکھائے دے رہا ہے۔ اس خطے کے آس پاس بڑی عالمی طاقتیں ہیں جو اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ اور اس خطہ کی سرگرمیوں پر ان کی گہری نظر ہے۔ اس کی متنازعہ حیثیت بھی ان طاقتوں کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے۔ اس کی حساس جغرافیائی اور سٹریٹیجک اہمیت اپنی جگہ مگر آج اس کی اہمیت اس لئے بھی ہے کیونکہ یہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ دنیا بھر سے سیاح آج بھی اس شہر کا طواف کرنے آتے ہیں اور یہاں سے اپنے قیام کی خوبصورت یادیں ساتھ لے کر واپس لوٹ جاتے ہیں۔ مگر انتہائی افسوس اس بات پر ہے کہ آج تک کے حکمرانوں نے اس عالمی شہرت کے حامل شہر کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کیا ہے۔ دادی جواری کی ڈیولپمنٹ سکیموں کے بعد اس شہر میں حقیقی معنوں میں کوئی بہت بڑی ڈیولپمنٹ نہیں ہوئی ہے۔ اس شہر کی نصف سے زائد آبادی آ ج بھی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔جوٹیال، ذولفقار آباد سے لے کر سکوار تک اور کے آئی یو سے لے کر سکار کوئی تک کئی اہم زمینیں صدیوں سے پانی کی پیاسی اور بنجر ہیں او ر دریا ئے گلگت کو حسرت کی نظر سے دیکھتی ہیں کیونکہ ان کے بغل سے دریا گلگت ٹھاٹھے مارتا ہو ا گزر تاہے۔ پانی کی قلت کے باعث ہزاروں خواتین صدیوں پہلے کی طرح آج بھی بر لب دریا کپڑے دھوتی ہیں۔ بجلی اس شہر کے نصیب میں کبھی پوری میسر نہیں ہوئی۔ عالمی شہرت کا حامل یہ شہر اپنی ٹوٹی پھوٹی سڑکیں دیکھ کر خون کے آنسو بہاتا ہے۔ صدیوں تک عالمی اہمیت کے حامل اس شہر میں سیوریج اور ڈرینج کا کوئی نظام سرے سے ہے ہی نہیں۔چنار باغ کے جڑواں پل اور کنوداس کا تاریخی معلق پل خستہ حال ہیں۔ ذولفقار آباد کو کے آئی یو سے ملانے والا پل گذشتہ ایک عشرے سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود زیر تعمیر ہے۔ شہر بھر میں کچرے کے ڈھیر جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ کے آئی یو روڑ پر سارے شہر کا کچرا ڈالا جاتا ہے جس سے دریا کا پانی آلودہ ہونے کے ساتھ کے آئی یو آنے اور جانے والے اساتذہ ، طلبہ اور مسافر روزانہ اس ناقابل برداشت بو کی اذیت سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ مشرف دور میں دئیے گئے پلوں ، رابطہ سڑکوں، یونیورسٹی اور جی بی سکاوٹس جیسے کچھ پراجیکٹس کے علاوہ ہم نے اپنی یا د میں کوئی قابل ذکر ترقیاتی منصوبہ اس شہر کو ملتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ اس شہر کے سرکاری دفاتر کی صورتحال بھی ابتر ہے۔ تحصیل اور عدالت کے سامنے سائلیں کو ڈھنگ سے بیٹھنے کی کوئی جگہ میسر نہیں ہے۔ ٹرانسپورٹ کی حالت بھی قابل رحم ہے۔ سوزوکی کی فرنٹ سیٹ میں جہاں ایک صحت مند شخص کو آرام سے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہوتی ہے وہاں تین تین خواتین بیٹھ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتی ہیں اور اس دوران سردی گرمی میں ان کی جان حلق میں آجاتی ہے۔ہسپتالوں، سکولوں، کالجوں اور دیگر پبلک مقامات کی حالت زار بھی قابل تعریف نہیں ہے۔صوبائی دارلخلافہ ہونے کے ناطے گلگت بلتستان کے تمام لوگ اس شہر سے مستفید ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ شہر گلگت بلتستان کے باسیوں کامشترکہ شہر ہے اور گلگت بلتستان کا چہرہ ہے مگر اس چہرہ کی حالت 2016 میں بھی قابل رحم ہے۔ ڈوگروں، انگریزوں، چینیوں اور روسیوں سے لے کر بڑی بڑی طاقتوں اور دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے اہمیت کا حامل یہ شہر اور اس کے باسی یہاں کے حکمرانوں کے لئے ہمیشہ غیر ا ہم رہے ہیں۔گذشتہ حکومت نے اس شہر کو ماڈل سٹی بنانے کے دعوے کیا مگر نتیجہ صفر نکلا۔اْس وقت اس شہر کے کل چھ باسی اسمبلی اور کونسل کے اہم عہدوں پر فائز تھے۔ اس دفعہ موجودہ حکومت بھی ایک سال سے یہی راگ الاپ رہی ہے۔ اس دفعہ تو خود وزیر اعلیٰ اور وزیر تعمیرات کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ شہر کی تینوں سیٹیں موجودہ حکمران جماعت کو ملی ہیں۔ دو معاونین خصوصی اور ایک کونسل کا ممبر بھی اس شہر سے تعلق رکھتا ہے۔ گویا گذشتہ کی طرح اس دفعہ بھی اسی شہر کے چھ باسی اہم حکومتی عہدوں پر فائز ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اب تک ایک بھی نیاء4 ترقیاتی کام اس شہر میں شروع نہیں ہوا ہے۔ جو بھی ہورہا ہے وہ اخباری بیانات میں ہو رہا ہے اگر زمین پر کچھ ہوتا تو یہاں دن رات چلنے والے لوگوں کو نظر آتا۔ گذشتہ کئی سالوں میں یہاں صرف سرکاری افسران کی ٹھا ٹھ باٹھ اور اللے تللوں میں اضافہ ہوا ہے ، ان کو لش پش نئی گاڑیاں ملی ہیں، ان کے لئے بنگلے تعمیر ہوئے ہیں جبکہ شہر کی حالت ابتر سے ابتر ہوتی جارہی ہے۔سرکار ی افسران کی ان عیاشیوں کے لئے تو قومی خزانے میں بہت پیسہ ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اس شہر کی خوبصورتی ،ترقی اور شہریوں کی آسائش کے لئے قومی خزانے میں کوئی پیسہ نہیں ہے۔ لگتا ہے اس شہر کی اہمیت اقتصادی راہداری کے بعد مزید بڑھے گی مگر اس کا باسی صدیوں کی طرح آئندہ بھی کرب سے گزرتا رہے گا اور ہر آنے والے حکمران شہر کو جنت بنانے کے وعدے وید کرتے ہوئے اپنی مدت پوری کر کے چلے جائیں گے اور عالمی شہرت کا حامل یہ شہر گلگت خستہ حال ہی رہے گا۔