تازہ ترین








آج شام 5 بجے سے 10 بجے تک اور کل 5 بجے سے رات 11 بجے تک موبائل سگنل آف رہینگے .

Wednesday, May 11, 2016

اسلام میں علمی معاشرے کا تصور تحریر: الواعظ اشرف خان

علمی معاشرے کا تعارف اور پس منظر:
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دُنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے لوگوں کو ایک دوسرے کے اتنا قریب لایا ہے کہ جو کسی زمانے میں تصوّر بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اگرچہ ہر زمانہ اپنے دور میں ایک تبدیلی سے گزر رہا ہوتا ہے لیکن دُنیا نے پچھلے چند عشروں میں جو تبدیلی دیکھی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ عالمگیریت (Globalization) جو کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی پیداوار ہے نہ صرف لوگوں کی معاشی زندگی پر اثر انداز ہوئی ہے بلکہ اس سے کسی حد تک لوگوں کی سماجی اور اخلاقی زندگی بھی متاثر ہوئی ہے، اور مذہبی حلقے بھی اس کی زد میں آئے بغیر نہیں رہے۔ جس سے نت نئے چیلنجز رونما ہوئے ہیں ۔ ان مشکلات میں سب سے بڑی مشکل چھوٹی ثقافتوں کا بڑی ثقافتوں کے زیر اثر آنا اور مغلوب ہو جانا ہے جس سے ایسی چھوٹی ثقافتوں کو اپنی شناخت یا وجود برقرار رکھنے میں مشکلات در پیش ہو رہی ہیں۔ ان چیلنجز کے حل کے لئے نئے نظریات اور اصطلاحات منظر عام پر آ رہی ہیں جیسے تکثیریت (Pluralism)، شہری معاشرہ(Civil Society) ، جمہوری معاشرہ (Demoratic Society) وغیرہ۔ علمی معاشرہ یعنی نالج سوسائٹی بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ آسٹریا کے پیٹر ایف۔ڈراکر نے پہلی بار نالج سوسائٹی کی اصطلاح کو استعمال کیا اور ۹۰ کی دہائی میں اس پر بہت زیادہ لکھا گیا۔
اگر ہم انسانی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسانی معاشرہ ہزاروں سالوں سے زراعت سے وابستہ رہا ہے اور زراعت نے انسانی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ تاریخ میں اس دور کو زرعی دور یا معاشرہ (Agricultural Society) کہا جاتا ہے۔ لیکن تین صدیاں پہلے زراعت کی جگہ صنعت نے لے لی۔ مشینیں ایجاد ہوئیں اور مہینوں کا کام گھنٹوں اور منٹوں میں ہونے لگا اور صنعت نے زراعت کو بھی مزید فروغ دیا۔ اس طرح اس دور کو صنعتی دور یا معاشرہ (Industrial Society) کا نام دیا گیا۔ جبکہ پچھلے چند عشروں میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور "Cyber Space" نے صنعتی اور زرعی معاشروں کی جگہ علمی معاشرہ (Knowledge Society)کو جنم دیا جس سے سماجی اثر کا دائرہ کارخانہ دار اور زمیندار سے نکل کر اُن لوگوں کے پاس چلا گیا ہے جو علم و تحقیق کا کام کرتے ہیں اور جنھیں انگریزی میں Knowledge Worker بھی کہا جاتا ہے۔ ۱؂
اس سے پہلے کہ ہم علمی معاشرے کو اسلام کی نظر سے دیکھیں ، یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ہم علمی معاشرہ (Knowledge Society) کی تعریف پر بھی ایک نظردوڑائیں۔ اگرچہ اصطلاحات نظریات کی شارٹ کٹ ہوتی ہیں اور کسی اصطلاح کی تعریف سے اُس نظریے کا مکمل اندازہ نہیں ہوتا۔ تاہم یہ لوگوں کی مختلف تشریحات اور سمجھ کو سامنے لے آتی ہیں۔ نالج سوسائٹی اور انفارمیشن سوسائٹی کبھی ہم معنی اور کبھی الگ الگ مفہوم میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔ ۲؂
UNESCO کے جنرل سب ایڈیٹر برائے اطلاعات و نشریات عبدالوحید خان علمی معاشرہ کی تعریف یوں کرتے ہیں۔"Information society is
the building block of knowledge society, where as I see the concept of "information society" as linked to the idea of "technological innovation", the concept of "knowledge society" includes the dimension of social, cultural, economical, political and institutional transformation, and a more pluralistic and developmental perspective.....the knowledge in question is important not only for economic growth but aslo for empowering and developing all sectors of life."
یعنی انفارمیشن سوسائٹی نالج سوسائٹی کی اکائی ہے۔ جہاں انفارمیشن سوسائٹی کے تصوّر کا تعلق صرف فنی اختراع و جدت سے ہے وہاں نالج سوسائٹی کا تصوّر سماجی، ثقافتی، معاشی ، سیاسی اور ادارہ جاتی تبدیلی اور نیز تکثیری اور ترقیاتی پہلوؤں کو بھی اپنے اندر جگہ دیتا ہے۔ چونکہ زیر بحث علم نہ صرف معاشی ترقی کے لئے اہم ہے بلکہ یہ معاشرے کے تمام سیکٹرز کی ترقی اور لوگوں کو بااختیار بنانے کے لئے بھی ضروری ہے۔
Sally Burch اپنے مقالہ’’انفارمیشن سوسائٹی اور نالج سوسائٹی ‘‘ میں مینول کیسل کی اس تعریف کا حوالہ دیتی ہے کہ:"It has to do with the society in which the conditions for generating knowledge and processing information have been substantially changed by a technological revolution focused on informationn processing, knowledge generation and information technology". 2
اس تعریف کی رو سے سوسائٹی میں علم کی تخلیق و تحقیق اور معلومات کی عملی کاروائی یا طریق عمل کی حالات تکنیکی انقلاب کیوجہ سے واقعی طور پر تبدیلی سے گزرتی ہیں جہاں یہ عمل معلومات کی Processing ، علم کی تخلیق اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مرکوز ہوتا ہے۔ ؂ سول سوسائٹی declaration میں علمی معاشرہ کی تعریف یوں کی گئی ہے’’کہ وہ معاشرہ جہاں علم کی تحقیق و تخلیق، علم تک رسائی، اُس کا استعمال اور دوسروں تک پھیلانے کا عمل آزادانہ ہو تاکہ افراد اور کمیونٹی اپنے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے با اختیار ہو سکے۔‘‘ ۳؂
مندرجۂ بالا چند تعریفوں سے یہ بات کھل کر واضح ہو جاتی ہے کہ وہ معاشرہ کبھی آگے نہیں بڑھے گا اور علمی معاشرہ نہیں کہلائے گا جہاں علم و تحقیق کا عمل رُکا ہوا ہو اور لوگ صرف دوسروں کے علوم پر اکتفا اور گزارہ کرتے ہوں یا اپنے اسلاف کے علوم کو وسعت دیے بغیر ہی دہراتے ہوں۔ وہ معاشرہ جہاں علم دوستی اور تخلیق و تحقیق کا عمل جاری ہو اور علم تخلیق یا generate ہو رہا ہو اور وہ لوگوں تک پھیل رہا ہو نالج سوسائٹی کہلائے گا۔ جسے وہ معاشرہ اپنی مذہبی، ثقافتی اور اخلاقی اقدار کو کھوئے بغیر اپنے معیار زندگی کو بلند کرے۔
اسلام اور علمی معاشرہ:۔
اسلام میں علم و تحقیق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کیونکہ قرآن مجید نے علم و حکمت کو جو اہمیت دی وہ مسلمانوں میں علم و تحقیق اور تعلیم و تعلّم کی ترقی کی ضامن بن گئی۔ رسول صلعم کی سنت و احادیث کو یاد کرنے اور محفوظ کرنے کی ضرورت نے اس علمی شعور اور حوصلے کو اور بھی استحکام بخشا۔چونکہ قرآن مجید اور آپ صلعم کی ذات گرامی خود مسلمانوں کے لئے ایک بڑا علمی سرمایہ ہے۔ اسلام وہ دین ہے جس کی بنیاد لفظ ’’اقراء ‘‘ سے پڑی اور خدا وند لایزال نے خود قرآنِ پاک کی اس آیت الرَّحمٰن عَلَمَ القرآن سے خود کو معلم اول متعارف کرایا ہے۔ نیز رسول صلعم کی بھی اولین ذمہ داری ’’ےُعَلِّمُُھُمُ الکتابَ و الحِکْمَہ‘‘ یعنی علم و حکمت کی تعلیم دینا ہے اور اس کا اظہار اور تصدیق رسول صلعم نے بعثت مُعَلِّمٌ سے کر دی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات بحیثیتِ معلمِ اول اور آنحضورؐ بحیثیت معلم ثانی لوگوں کو علم و حکمت کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ اور نہ صرف یہی بلکہ قرآن پاک کائنات کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لئے عقل و شعور کے استعمال پر بھی بارہا تاکید کرتا ہے۔ نیز رسول صلعم کی سیرت طیبہ بھی ہمارے لئے قابل تقلیدمثال ہے کہ مسجد میں داخل ہوکر علمی محفل میں شرکت کرنااور علم کے متلاشیوں کو چین تک جانے کی تلقین فرمانا یقیناًآپؐ کی علم دوستی اور علم کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کا ثبوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس وقت حصول علم مسلمانوں کی روز مرہ زندگی کا ایک اہم حصہ بن گیا اور دینی علوم کی سمجھ اور عمل میں اضافے کا ذریعہ بنا۔ انھوں نے اپنے وقت اور علم کو وقف کرنے میں ہمیشہ فیاضی سے کام لیا۔ اسلامی ثقافت و تمدن کا فروغ اسی عظیم روّیے کی مرہون منت ہے۔ چنانچہ قرطبہ، قاہرہ، بغداد، بخارا، سمرقند اور اصفہان میں وہ علمی کام اور رنگارنگ تخلیقی شاہکار اور تعمیرات اس کی گواہی دیتے ہیں۔ ۴ ؂
مسلمان نہ صرف دینی علوم یعنی تفسیر قرآن ، علم احادیث، فقہ اور علم الکلام وغیرہ میں ہی محدود ہوکر رہ گئے بلکہ وہ دوسری ثقافتوں تک بھی پہنچے اور اُن کے علوم کا مطالعہ کیا، اُن کے اچھے علوم کا عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ اسی طرح مسلمانوں نے دوسرے علوم یعنی فلسفہ ، طب، علمِ فلکیات، ریاضی، ادویات اور طبیعات جیسے اہم علوم پر بھی دسترس حاصل کی اور اُنہیں مزید فروغ دیا۔ ترجمے سے متعلق اُن تمام سرگرمیوں کا ذکر اس مقالے کی گنجائش سے باہر ہے تاہم چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔
ول ڈیورانٹ کی مشہور کتاب ’’اسلامی تہذیب کی داستان‘‘ میں جس کا ترجمہ یاسر جواد نے کیا ہے، لکھتا ہے ’’ 830 ؁ء میں المامون نے بغداد میں دو لاکھ دینار کی لاگت سے ’’بیت الحکمت‘‘ بطور سائنسی اکیڈیمی قائم کیا ۔۔۔یہاں مترجمین کی پوری ایک فوج بھرتی کی گئی جنھیں شاہی خزانے سے ادائیگی کی جاتی۔ ابن خلدون کے خیال میں اس ادارے کا کیا ہوا کام ہی اسلام کی پُر جوش بیداری کی بنیاد تھا، اور اسی کے نتیجے میں سائنس، ادب، آرٹ کو بے حد فروغ ملا۔ 750 ؁ء سے 900 ؁ء تک ترجمہ کا یہ زرخیز عمل جاری رہا۔
بیت الحکمت میں شعبۂ تراجم کا سربراہ ایک نسطوری طبیب حنین ابن اسحاق تھا اُس کے اپنے بیان کے مطابق اُس نے گیلن (جالینوس) اور اُس کے پیروکاروں کے ایک سو مقالے شامی زبان میں اور اُنتالیس عربی میں ترجمہ کیا۔ نیز حنین نے ارسطو کی "Catagories" ’’فزکس‘‘ اور’’ میگنا مورالیا‘‘، افلاطون کی ’’جمہوریہ‘‘ ’’ٹائمےئس‘‘ اور ’’قوانین‘‘ بقراط کی "Aphorism" ڈایوسکوریدیس کی ’’مٹیریا میڈیکا‘‘ ٹولمی (بطلیموس) کی "Quardripartitum" اور یونانی زبان سے عہدنامۂ عتیق کا ترجمہ بھی کیا۔ المامون نے حنین کو ترجمہ کردہ کتابوں کے وزن کے برابر سونا دے دیا‘‘۔ (صفحہ نمبر ۱۲۸)
علم و تحقیق کے حوالے سے صدیوں پر مبنی مسلمانوں کی کوشش اور کاوش رہتی دنیا تک تمام انسانوں کے لئے قابل تقلید مثال ہے۔ تاریخ اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے کہ جب مسلمان قوم تہذیب و تمدن اور خاص کر علم و دانش اور تحقیق میں عروج پر تھی اس وقت موجود ہ یورپ علمی تاریکی ، جہالت اور پسماندگی کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا ۔ اور یورپ کے اس دور کو تاریک دور یا (Dark) age بھی کہا جاتا ہے۔
اس زمانے میں اسلامی ثقافت یقیناًنمایاں طور پر متحرک، فعال اور توانا تھی جو برصغیر، مشرق وسطیٰ ، سنٹرل ایشیا سے لیکر مغرب تک علمی جستجو کرکے اس روایت کو مزید مستحکم کیا۔ تاریخ انسانی میں جو تہذیبیں اور ثقافتیں پُراعتماد رہی ہیں اُنھوں نے ہمیشہ علمی جستجو اور تحقیق کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کی ہیں اور اپنی روایات کو مسخ کئے بغیر اُن کو مزید توسیع دیتے ہوئے دنیا کے دوسرے حصوں تک بھی پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ اسلام کی مثال اُن اہم مثالوں میں سے ایک ہے۔ اہل یونان کے بعد اسلام علم و دانش کی سرپرستی میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ علمی تحقیق اور عقلی ترقی کی خاطر یورپ نے بھی ایک زمانے میں اسلامی دنیا کا رُخ کیا اور یہاں تک کہ یورپ نے اپنی کلاسیکل جڑیں بھی عربی کتابوں میں دوبارہ دریافت کیں۔ ۵ ؂
مسلمانوں کے علمی ادارے انسانی تاریخ کے عظیم شاہکار ہیں جن میں بغداد کا بیت الحکمہ، مصر کا جامعہ الازہر اور دارالعلم قابل ذکر ہیں۔ اِن علمی مراکز میں دینی اور دُنیوی علوم میں کوئی تفریق نہیں تھی۔ بلکہ سب کو ایک علم کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ دُنیا کے دیگر حصوں سے بھی لوگ اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے اِن مراکز کا رُخ کرتے تھے، ان اداروں کے دروازے نسلی، لسانی اور علاقائی پس منظر سے قطع نظر سب کے لئے کھلے رہتے تھے۔ جہاں بحث و مباحثہ، سوال و جواب، تحقیق و ترجمے اورتدوین و تالیف کے کام کو تسلسل حاصل تھا۔ مسلمانوں کی اس علمی شغف نے کتابوں کی تصنیف و تالیف کے کام کو بہت زیادہ فروغ دیاجس سے بڑے بڑے کتب خانے وجود میں آگئے۔ جہاں شاہی اور عوامی کتب خانوں کے ساتھ ساتھ علماء اور دوسرے لوگوں نے اپنی ذاتی کتب خانے بھی بنائیں۔ ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ اگر کہیں کوئی نادر نسخہ، کتابیں یا مواد موجود ہو تو اُن کو اِن کتب خانوں میں لایا جائے ہر خاص و عام ان کتب خانوں کا رخ کرتے تھے اور مطالعہ کرتے تھے۔ یوں ان کتب خانوں نے بھی بڑے علمی مراکز کے طور پر علم و تحقیق کے فروغ میں اپنا کردار ادا کیا۔ مشہور اسکالر ڈاکٹر سید حسین نصر اپنی کتاب ’’اسلام میں تہذیب اور سائنس‘‘ میں لکھتے ہیں ’’1005 ؁ء میں فاطمی خلیفہ الحاکم بامراللہ نے قاہرہ میں دارالعلم تعمیر کروایا جس میں ریاضی اور طبیعیات کی تعلیم دی جاتی تھی اور جس میں ایک کتب خانہ بھی تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کتب خانے میں دس لاکھ سے بھی زیادہ کتابیں تھیں‘‘۔ (صفحہ نمبر ۶۴)
مسلمانوں کی اس ترقی کے پس منظر میں اگرچہ بہت سارے عوامل کارفرما رہے ہیں لیکن سب سے اہم اور بنیادی وجہ حکومتی سرپرستی، دلچسپی اور معاشی و مالی معاونت تھی جس سے قرونِ وسطیٰ میں ابن سینا طب پر لکھنے والا عظیم ترین محقق، الرازی عظیم ترین طبیب، البیرونی عظیم ترین جغرافیہ دان، الہیثم عظیم ترین ماہرچشم، جابر بن حیان غالباً عظیم ترین کیمیا دان پیدا ہوئے۔ ۶ ؂ اخوان الصفاء بھی اُس سلسلے کی ایک کڑی ہے جو باون رسالوں کے مصنفین کی جمعیت تھی جن کا کام ایک بڑا علمی اور عقلی سرمایہ ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر نصیر احمد ناصر اپنی کتاب’’اسلامی ثقافت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ملتِ اسلامیہ کی ثقافتی قوت و ترقی کے دو بنیادی اسباب تھے۔ اول یہ کہ قرآن حکیم کے افکارِ جلیلہ و محرّکہ کی قوت سے وہ زندہ و ارتقائی، جمیل و جلیل اور ناقابل تسخیر تھی۔ دوئم، وہ اپنے افکارِ جلیلہ و محرّکہ کے تحفظ، نیز اُن کی قوت کے ذریعے اپنی ثقافت کو جمیل و جلیل اور حرکی و ارتقائی بنانے کی خاطر اپنے تمام وسائل سے مسلسل جدوجہد کرتے رہتے تھے، جسے اصطلاحِ قرآنی میں ’’جہاد‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔‘‘ (صفحہ نمبر ۶۶۴)
جبکہ ڈاکٹر منظور احمد اس ترقی کی وجہ کچھ یوں بتاتے ہیں۔ ’’مسلمانوں نے علوم اور فنون میں جو ترقی کی ہے اُس کی ایک وجہ یہ رہی ہے کہ مذہب نے ان پر کوئی ایسی پابندی عائد نہیں کی تھی کہ وہ اپنے ذہن کا استعمال آزادی سے نہ کر سکیں۔ اسلام نے تو ان کوصنمیات (mythology) سے آزادی دلائی تھی جہاں پر ہر فطری اور انسانی عمل کے پسِ پشت کوئی چھوٹی بڑی غیر مرئی قوت، کوئی دیوی دیوتا، فرشتہ یا جن، کارفرما ہوتا تھا۔ مسلمانوں نے اس بندش سے آزاد ہوکر، حکومت کی پشت پناہی کے سبب، ہر متداوّل علم کے خزانے میں بیش بہا اضافہ کیا اور وہ اپنے سائنسی اور علمی مشاغل کے اسلامی ہونے کی بحث میں نہ الجھے‘‘ (صفحہ 184)
نیز مسلمانوں کے اس دور میں علم اور تعلیم میں دوئی (duality) نظر نہیں آتی ہے۔ دینی اور دنیوی علوم میں کوئی تقسیم(dichotomy) نہیں تھی۔ چونکہ اسلام کی تعلیمات میں یہ بات شامل ہے کہ دین و دنیا کوئی دو الگ الگ شے نہیں بلکہ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ ڈاکٹر نصیر احمد ناصر لکھتے ہیں کہ ’’ اسلام چونکہ کل حیاتِ انسانی کا ایک مکمل ضابطہ ہے اور اس میں دینی اور دنیاوی تفریق حرام ہے۔‘‘ وہ اپنے اس موقف کی تائید جسٹس اے رحمٰن اور مولانا ابوالکلام آزاد کی اس آراء سے بھی کرتے ہیں کہ ’’اسلام میں زندگی پر ایک جامع نظر ڈالی گئی ہے۔ زندگی کو دین اور ریاست کے دو علٰحیدہ علٰحیدہ شعبوں میں تقسیم کرنا روح اور جسم کی اُس ثنویت کے مماثل ہے جو مغربی فکر میں نظر آتا ہے۔ یہ تفریق فی الحقیت روح اسلام کے منافی ہے۔‘‘ (صفحہ نمبر ۶۱۸)
مندرجۂ بالا بحث سے یہ بات نکھر کر واضح ہو جاتی ہے کہ اگر دین اسلام میں دینی اور دنیاوی نام کی کوئی تقسیم نہیں تو پھر علمی لحاظ سے یہ علمی تثنیت کیوں؟ یہی وجہ تھی کہ جب مسلمان ترقی کے منازل طے کر رہے تھے تو اُس وقت علمی اعتبار سے یہ دوئی ہمیں نظر نہیں آتی۔ اس کی ایک اور مثال یہ کہ ابن رشد جو کہ اسلام سے زیادہ مغرب میں مشہور اور بااثر ہیں، بیک وقت قانون، عقائد، علم الکلام، فلسفہ اور علم الادویات میں مہارت رکھتے تھے اور مغرب نے بھی اُسی کے بل بوتے پر ارسطو کے مقالات اور کام سے واقفیت حاصل کی۔ ۷ ؂
اجتہاد اور تحقیق کا دروازہ کھلا تھا اور علم کی ہر قیمت پر حوصلہ افزائی ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اُس وقت سماجی، معاشی، اخلاقی اور خصوصاً علمی اعتبار سے ترقی کی بلند ترین حدیں چھو رہے تھے۔ جو کہ آجکل ناپید ہے اور یہ روّیہ نایاب ہو چکا ہے۔
عصر حاضر اور مسلم معاشرہ:
مسلم دنیا ایک شاندار علمی تاریخ رقم کرنے کے باوجود پچھلی چند صدیوں سے دوبارہ علمی پسماندگی سے دوچار ہے۔ دوسرے اقوام مسلمانوں کی اس شاندار تاریخ سے واقفیت رکھنے کے باوجود بھی مسلمانوں کو جاہل، رجعت پسند اور انتہاپسند سمجھتی ہیں بلکہ اس حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ترقی کے اس دور میں تقریباً57 آزاد مسلم ممالک ہونے کے باوجود علم و تحقیق کے اعتبار سے مسلمان پسماندہ نظر آتے ہیں۔ موجودہ دُنیاوی ترقی، علم و تحقیق میں مسلمانوں کا حصہ (contribution) آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ اس حوالے سے ہر ایک کے ذہن میں ایک سوال بار بار اُٹھتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ وہ قوم جن کی بنیاد اُس خداوندی حکم و ہدایت ’’اقراء‘‘ سے رکھی گئی تھی۔ علمی، ثقافتی اور تہذیبی طور پر ترقی کے منازل طے کرنے کے بعد دوبارہ زوال کا شکار ہوگئی؟
اس سوال کا جواب علماء، مفکرین اور دانشوروں نے مختلف انداز میں دیا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ مسلمان جس زمانے میں علم و تحقیق کی انتہائی حدیں چھو رہے تھے اُس وقت علم میں دوئی(duality) یا تقسیم (dichotomy) نہیں تھا۔ ایک مفسرِ قرآن بیک وقت طب کا بھی ماہر ہوتا تھا۔ ایک فلسفی بیک وقت حافظ قرآن بھی ہوتا تھا۔ یا یوں کہئے کہ بیک وقت علم الادیان اور علم الابدان دونوں میں مہارت رکھتے تھے جیسا کہ ابن رشد کی مثال پہلے ہی دی جا چکی ہے۔ یعنی اُن علمی مراکز اور نظام تعلیم میں علمی دوئی نہیں تھی۔ جب سے مسلمانوں نے علم کو دینی اور دنیاوی، نقلی اور عقلی، روایتی اور درایتی شعبوں میں تقسیم کیا ہے تب سے مسلمانوں نے علمی زوال دیکھنا شروع کیا ہے۔
بعض مفکّرین کی رائے یہ ہے کہ اجتہاد کا تعلق کسی حد تک تحقیق سے بھی ہے۔ اور جب سے مسلمانوں نے اجتہاد اور تحقیق دونوں کو خیرباد کہا ہے اُس سے علم و تحقیق کے روّیے پربُرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر امین اپنی کتاب’’مسلم نشاۃ ثانیہ ، اساس اور لائحہ عمل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’تحقیق جو کبھی مسلمانوں کے گھرکی لونڈی تھی آج ان سے روٹھی ہوئی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئیے کہ خود انھوں نے اسے چھوڑ رکھا ہے۔ تحقیق کی بنیاد حریت فکر ہے کہ اس کے بغیر تحقیق کی گاڑی آگے بڑھ ہی نہیں سکتی۔‘‘ (صفحہ نمبر۱۲۳)
کتاب ’’اسلامی ثقافت‘‘ کے مصنف ڈاکٹر نصیر احمد ناصر لکھتے ہیں کہ’’جس طرح یہ سچ ہے کہ ملت اسلامیہ اپنے عقائد جلیلہ و محرّکہ کی بدولت تقریباً آٹھ سو برس اقوامِ عالم کی قیادت کی، علم و حکمت اور سائنس و ٹیکنالوجی کا احیاء کیا، اُن کی سرحدوں کو وسیع کیا اور اُن کے ارتقائے مدام کے لئے جادۂ مستقیم کی تعین کی، نیز اُس نے فن و ادب اورْ صنعت و حرفت میں ایسی ترقی کی کہ اقوامِ عالم کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔ اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ وہ اپنے عقائد جلیلہ و محرّکہ کو اپنی زندگی سے اور قلم، سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنے مدرسے سے نکال کر کمزور و ناتواں ہوئی ہے۔‘‘ (صفحہ نمبر ۷۰۷)
جبکہ غیر مسلم مصنف ول ڈیورانٹ مسلمانوں کے زوال کی وجہ یوں بتاتے ہیں کہ ’’1200 ؁ء کے بعد اسلام نے استدلالی سوچ کو بالکل مسترد کر دیا۔‘‘ مسلم دنیا میں سیاسی طاقت کو زوال آنے پر ماہرینِ الٰہیات اور راسخ العقیدگی کے حامیوں کی زیادہ اعانت کی ضرورت محسوس کی جانے لگی۔ یہ مدد مل گئی، لیکن آزاد سوچ کے استحصال کی قیمت پر۔ پھر بھی یہ مدد ریاست کو بچانے کے لئے کافی نہیں تھی۔ اسپین میں عیسائی ایک کے بعد دوسرے شہر کی طرف بڑھے اور صرف غرناطہ مسلمان رہ گیا۔ مشرق میں صلیبیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا، اور 1258 ؁ء میں منگولوں نے بغداد کو فتح کرکے تباہ و برباد کر دیا۔‘‘ (صفحہ نمبر ۲۵۹)
مزید برآں آج مسلم ممالک میں اعلیٰ تحقیقی اور علمی اداروں کا فقدان ہے اگر ہم 57 مسلم ممالک کی طرف نظر دوڑائیں تو اِن سارے ممالک میں صرف ساڑھے چار سو کے لگ بھگ یونیورسٹیاں ہیں جبکہ صرف ایک جاپان ہی میں ایک ہزار سے زیادہ یونیورسٹی کام کر رہی ہیں۔ اور امریکہ میں تو 4 ہزار سے زائد یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ اورنہ ہی تحقیق کے لئے وہ ضروری سہولتیں میسر ہیں جہاں انسان آذادی اور دلجمعی سے تحقیق میں لگ جائیں اور اُس تحقیق کو علمی حلقوں کے سامنے لایا جائے جس پر تنقید اور بحث ہو اور اس طرح تحقیق کا کلچرفروغ پا سکے۔ ۸ ؂ چونکہ علمی معاشرے کی تعریف میں یہ بات شامل ہے کہ علم تخلیق ہو اور لوگوں تک پھیل جائے۔ لِہٰذا علم کی تخلیق کے لئے تحقیق بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ نیز مسلم ممالک میں تحقیقی اور علمی اداروں کے فقدان کے ساتھ اُن کا غیر علمی کردار بھی ہے، جہاں وہ صرف تکنیکی ادارے کی صورت اختیار کر گئے ہیں اور تعلیم و تعلم ایک تجارتی عمل بن کر رہ گیا ہے۔ ۹ ؂
ستم بالائے ستم یہ کہ مسلم ممالک میں جو یونیورسٹیاں کام کر رہی ہے اُن کی مجموعی اور تحقیقی بجٹ بھی ناگفتہ بہ ہے۔ اگر ہم اپنے ملک پاکستان کی مثال لے لیں تو مجموعی قومی آمدنی کا صرف دو فیصد تعلیم پر خرچ ہو رہا ہے۔ اور تحقیقی اداروں پر خرچ ہونے والی رقم کو اگر کسی مغربی ملک کے تحقیقی بجٹ سے موازنہ کیا جائے تو زمین و آسمان کافرق صاف نظر آتا ہے ۱۰ ؂
تحقیق نہ صرف سوشل سائنسز میں ہی ممکن ہے بلکہ یہ مذہبی علوم میں بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن مسلم دُنیا میں تحقیق کے لئے وہ آزادانہ ماحول مہیا نہیں۔ بلکہ تحقیق کرکے کوئی نیانکتہ یا نظریہ یا تشریح سامنے آجاتی ہے تو اس پر سنگ باری شروع ہوجاتی ہے۔ اور چند ایسے علماء کو ملک بدر کرنے کی بھی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔
علاوہ ازین نصاب تعلیم اور نظامِ تعلیم بھی علمی معاشرے کے قیام کے لئے بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ان میں نقائص موجود ہو تو علمی معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا۔ عموماً مسلم ممالک اور بالخصوص پاکستان میں نصابِ تعلیم بچے کی ذہنی صلاحیت و ضرورت اور عمر کی حد سے مطابقت نہیں رکھتے جس سے اُس بچے کی تصوّراتی سمجھ، روّیے اور مہارت میں تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر منظور احمد کے بقول بچوں کو مختلف النوع مضامین کی تعلیم دے دینی چاہئیے۔ اس سے اس کے دماغ کی وسعت میں اضافہ ہوگا اور وہ جانے گا کہ دنیا میں انجینئر ، منیجر اور مولوی کے علاوہ اور قسم کے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو بحیثیت مجموعی معاشرے کی خوش حالی کے لئے کارآمد ہو سکتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص یا ایک بڑی تعداد فلسفی، شاعر ، تاریخ دان یا مذہب کے ماہر بنے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس معاشرے سے ان لوگوں کی تعداد ایک خاص سطح سے گر جاتی ہے تو وہ معاشرہ اپنے آپ کو خود نہیں سنبھال سکتا اور خود کو دنیا سے درآمد کیے ہوئے تصوّرات کے حوالے کردیتا ہے۔‘‘ (صفحہ ۱۵۹)
مندرجۂ بالا وجوہات کی بناء پر مسلم دنیا عصر حاضر میں علمی اعتبار سے وہ مقام حاصل نہیں کر سکی جو ان کے اسلاف نے تقریباً ۶ سے ۷ سو سالوں پر محیط عرصے میں حاصل کی تھی اور اُن کے افکار اور سائنس کئی عرصے تک یورپ کے نصاب میں شامل تھی۔ صورتِ امروز یہ ہے کہ مسلم معاشرہ مغربی علم کا صارف (consumer) اور مغرب عصر حاضر کے تمام علوم کا خالق(producer) بن بیٹھا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو وہ کونسی اقدامات اُٹھانی چاہئیے جن سے مسلم دنیا ان علوم کا احیاء کرکے ایک علمی معاشرہ قائم کر سکے؟
نالج سوسائٹی کے قیام کے لئے ایک بنیادی نکتہ یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت سے زیادہ ہمیں اُن اداروں پر انحصار کرنا پڑے گا جن کو سول سوسائٹی کہا جاتا ہے۔ جو کہ پرائیویٹ اور رضاکارانہ طور پر عوام کی بہتری کے لئے تعلیم و تحقیق، محنت، تجارت، صحت، ماحول، ثقافت اور مذہب کے میدان میں سرگر م عمل ہیں۔
بجائے اس کے کہ محققین اور علماء ہزاروں میل کی مسافت طے کریں اور لائبریریز کا چکر کاٹیں، وہ انٹرنٹ میں دستیاب موزوں ویب سائٹ میں ہر قسم کی معلومات و علوم تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ بشرطیکہ ہم یہ جانتے ہوں کہ ہم کیا نہیں جانتے ہیں۔ ۱۱ ؂
نیز مسلم دنیا میں نالج سوسائٹی کے قیام کے حوالے سے محمد عثمان المحمدی درج ذیل مشورے دیتے ہیں:۔
*انفارمیشن اور کمیونکیشن اور نئی ٹیکنالوجی کی دریافت اور اُس کا مؤثر استعمال۔
*دنیا کے دوسرے علاقوں، ثقافتوں اور اقوام کے ساتھ بڑے تعلقات استوار کرنے کی ضرورت۔
*اپنے روّیے میں ذہنی وسعت، باہمی تعامل، سمجھ میں اضافہ، جذب و تحلیل، اعادہ، تعمیری تنقید اور تجزیہ و جائزہ لینے کا عنصر پیدا کرنا جوکہ معاشرے میں تخلیقی علوم کی پیداوار کا باعث بنے گا۔
*معاشرے میں نالج سوسائٹی کے دوسرے عناصر سمیت ایک مثبت تبدیلی کے لئے آمادگی، تعلیم کی موجودہ صورت، سائنسی تحقیق، میڈیا، اشاعتی صنعت، مذہب و ثقافت، عقلی ورثہ اور قومی زبان کے استعمال کا تجزیہ و جائزہ لیتے رہنا۔
*لوگوں کو ایک حقیقی نالج سوسائٹی کے قیام کے لئے موثرمعاشی، سماجی اور سیاسی اداروں کی ضرورت کے حوالے سے تعلیم دینا اور معاشرے کے اُن منفی روّیوں اور صورتحال کے حل کے لئے، جو مسلمانوں کو قیمتی عقلی ورثہ اور حریتِ فکر و تعلم سے دور رکھتا ہو، تعمیری تنقیدی سوچ کوپروان چڑھانا جس کا تعلق معاشرتی خاکہ و اقدار سے ہے۔
*لوگوں کو علم کی مختلف اقسام میں تخلیق اور اُس علم کو پھیلانے میں موثر کردار ادا کرنے کی تعلیم و تربیت دینا جوکہ کسی بھی ملک میں نالج سوسائٹی کی بنیادیں سمجھی جاتی ہیں۔
*اُن (مسلمانوں) کوموجودہ حالات میں یہ دیکھنا ہوگاکہ وہ کہاں کھڑے ہیں اور یہ جانیں کہ اُن کی خوبیاں (strengths) اور کمزوریاں(weaknesses) کیا ہیں؟
*مسلمانوں کو اس نئی ٹیکنالوجی کے دور میں تجارت اور کاروبار کے بھیدوں سے خوب واقفیت حاصل کرنی چاہئیے تاکہ وہ سادہ لوح بن کر دوسروں کے فریب میں نہ آ سکیں۔
*ہمارے لئے نالج سوسائٹی نہ صرف تجارت، معاشیات اور انتظامی امور میں مہارت کو بڑھاتی ہے بلکہ اُس کے ساتھ ساتھ تصوّرِ خدا، انسانی زندگی میں اُن کے عقائد و نظام اور دنیا میں بحیثیت مسلمان اپنی شناخت کو سمجھنے اور قائم رکھنے کی بھی ترغیب دیتی ہے۔
*اگرچہ قرآن و سیرتِ رسولؐ ہمارے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہیں اور پھر ہماری مجموعی تاریخ میں انسانی تجربہ، عقل اور حسّی مشاہدات و شواہد سے ماخوذ علم و دانشمندی بھی ہماری نالج سوسائٹی کی بنیادیں ہیں۔
لِہٰذا آج کی اس روح پرور اور ایمان افروز محفل کی مناسبت سے یہاں پر موجود تمام علمائے کرام، شعرائے عظام، دانشور اور سیاسی نمائندوں کو گلگت جیسے ایک اہم اور تکثیریت پر مبنی شہر میں نالج سوسائٹی کے قیام کے لئے سرجوڑ کرجدو جہد کرنے کی ضرورت ہے نیزیہاں کی یونیورسٹی، کالجز، ادبی تنظیمات،ذرائع ابلاغ اور سول سوسائٹی کے اداروں کے اہلکاروں اور دیگر اہل علم لوگوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرکے نالج سوسائٹی کے لئے تنظیم نو کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ ہماری نئی نسل اس نقش قدم پر چل کر معاشرے کے لئے بہترین انسان و مسلمان اپنا کردار ادا کر سکے جس سے اجتہاد و تحقیق کی فضاء پھر سے قائم ہو سکے اور حقیقی معنوں میں ایک علمی معاشرہ (knowledge society) وجود میں آ سکے۔
حوالہ جات
۱۔Address by HH the Aga Khan at the commencement Ceremony of the American University (Cairo-Egypt) July 15, 2006
۲۔Sally Burch: The Knowledge Society / The Information Society, (2008)
۳۔ ----------------do------------------
۴۔واعظین ڈائجسٹ شمارہ نمبر 120، جولائی 2008 ؁ء
۵۔Address by HH Aga Khan at American University Cario 2006
۶۔اسلامی تہذیب کی داستان، مولف ول ڈیورانٹ، مترجم یاسر جواد (۲۰۰۶)، لاہور۔
۷۔Islamic Life and Thought سید حسین نصر صفحہ نمبر ۴۷
۸۔مسلمانوں کی پستی اسباب اور حل (فضل کریم بٹھی)
۹۔اسلام، چند فکری مسائل از ڈاکٹر منظور احمد ص ۱۶۳
۱۰۔ ایضاً
۱۱۔Address by HH the Aga Khan at the commencement Ceremony of the American University (Cairo-Egypt) July 15, 2006
کتابیات:
۱۔مودودی، سیّد ابوالاعلیٰ۔ (2003)۔ خلافت و ملوکیت: ادارہ ترجمان القرآن رحمٰن مارکیٹ لاہور۔
۲۔Daftary, Farhad. (2004). Intellectual Traditions in Islam. I.B.Tauris, London, New York.
۳۔Farouki. Suha& Nafi. Bashir. M. (2004). Islamic Thought in the 20th Century. I.B. tauris & Co. Ltd. London
۴۔امین۔ محمد (2004) مسلم نشاط ثانیہ آساس اور لائحہ عمل۔ انسٹیٹیوٹ آف پاکستان سٹڈیز بیت الحکمت لاہور۔
۵۔Sajoo. Amin. B. (2002). Civil Society in the Muslim World. I.B. Tauris. London. New York
۶۔احمد۔ منظور (2005) اسلام چند فکری مسائل۔ ادارۂ ثقافت اسلامیہ لاہور۔
۷۔شلیبی۔ احمد (1995) مسلمانوں کا نظام تعلیم۔ اردو اکیڈمی سندھ، کراچی۔
۸۔بٹھی، فضل کریم ( ) مسلمانوں کی پستی۔ اسباب اور حل۔ فیض الاسلام پرنٹنگ پریس راولپنڈی۔
۹۔Burch. Sally (2008). The Information Society/The Knowledge Society: http:/recam. org/article 517. html.
۱۰۔Dhanani. Alnoor (1996). The Muslim Almanac: The Institute of Ismaili Studies. London.
۱۱۔Nanji.Azim (2007). Learning and Education. The Institute of Ismaili Studies. London.
۱۲۔Hussain. Syed Sajad (1979). Crisis in Muslam Education. King Abdul Aziz University, Jeddah.
۱۳۔ڈیورانٹ۔ ول (مترجم یاسر جواد) (2006) ۔ اسلامی تہذیب کی داستان۔ نگارشات پبلشر، لاہور۔
۱۴۔نصر۔ سید حسین(1988)۔ اسلام میں سائنس اور تہذیب۔ ہمدرد فاؤنڈیشن پریس، کراچی۔
۱۵۔ناصر۔نصیر احمد ( ) ۔ اسلامی ثقافت۔ فیروز سنز لمٹڈ۔ لاہور، راولپنڈی، کراچی۔
۱۶۔ڈریپر۔ جان ولیم (مترجم مولانا ظفر علی خان) (2004) ۔ معرکہ مذہب و سائنس۔ الفیصل ناشران و تاجرانِ کتب، اردو بازار لاہور۔ 

No comments:

Post a Comment